سانحۂ 16 دسمبرکس کی غلطی!!!

0
58
شمیم سیّد
شمیم سیّد

ہم اپنے ایک دوسرے سے ہر گزرتے دن میں متنفر کیوں ہورہے ہیں؟ کیوں مشرقی اور مغربی پاکستان ایک دوسرے سے الگ ہوگئے؟ ہم ہر سال 16دسمبر کو خاموشی سے گزار دیتے ہیں، لیکن اپنا احتساب تو دور کی بات اس بات پر بھی غور بھی نہیں کرتے کہ وہ کیا وجوہات ہیں کہ ہم آج تک ایک قوم نہ بن سکے، ہمارے اندر ایک ملک میں رہتے ہوئے کئی برائیاں کیوں ہیں؟ کیوں ہم آج تک اپنی غلطی تسلیم کرنے سے قاصر ہیں؟ ہم نے تو آج تک یہ تسلیم نہیں کیا کہ یہاں پر ڈکٹیٹر شپ یا مارشل لائوں میں بھی کوئی غلطیاں ہوئی ہیں یا نہیں؟یہ غلطیاں نہ ماننے کا ہی صلہ ہے کہ آج بلوچستان ہو یا کے پی کے فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ بلوچستان کو دیکھ لیں پاکستان کے کل رقبے کا 40فیصد ہے، وہاں کی آبادی ڈیڑھ کروڑ ہے، جو کل پاکستان کاصرف6فیصد ہے، جبکہ 94فیصد پاکستان کی آبادی وہاں نہیں جا سکتی۔ وہاں جانے والے غیر بلوچیوں کو شناختی کارڈ چیک کر کے موت کے گھاٹ اُتارا جاتا ہے۔ وہاں پر تشدد پسند تحریکوں اور گروہوں کو دبانے کے لیے آپریشنز بھی کیے گئے مگر بجائے افاقہ کے مسائل میں اضافہ ہوا ۔ اس وقت کے مشرقی پاکستان میں تعینات اسسٹنٹ کمشنراکبر ایس احمد کہتے ہیں کہ 90فیصد تک بنگالی اپنے آپ کو پرو پاکستانی ہی سمجھتے تھے لیکن 25مارچ 1971 کے بعد 90فیصد بنگالی مغربی پاکستان سے متنفر ہو چکے تھے۔ دراصل 7 مارچ کو شیخ مجیب نے سول نافرمانی کا اعلان کر دیا تھا، جس کے بعد حالات خراب ہوئے اور 25مارچ کو آپریشن کیا گیا جبکہ اسی اثنا میں ہمارے سکیورٹی ادارے کہتے ہیں کہ بنگالی جوانوں پر مشتمل ایسٹ بنگال رجمنٹ اور ایسٹ پاکستان رائفلز بمع پولیس نے بغاوت کردی تھی۔ یہ اسلحے کے ساتھ ندی، نالوں اور کھیتوں کے ذریعے بھارت کی جانب بھاگ رہے تھے اور راستوں میں آنے والی غیر بنگالیوں کی آبادیوں کا صفایا کرتے جا رہے تھے۔ 25 مارچ سے پہلے پاکستان کی فوجوں نے کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔ اس لئے پاکستان کی طرف سے بنگالیوں کی نسل کشی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ؟ لیکن جو بھی ہے، ان دنوں جس علاقے میں بھی دورہ کیا جاتا وہاں لاشیں ہی لاشیں ملیں۔ جن لوگوں نے مسجدوں میں پناہ لی تھی وہاں گھس کر ان کو بھی قتل کیا گیا(یاد رہے یہ غیر بنگالیوں کا قتل عام تھا) مغربی پاکستان کے فوجیوں کو مسجدوں میں آٹھ آٹھ انچ خون کی تہیں جمی ہوئی ملیں۔ خیر بات ہو رہی تھی اکبر ایس احمد کی تو وہ کہتے ہیں کہ جب آپ کسی پر گولی چلاتے اور طاقت کے ذریعے اسے دبانے کی کوشش کرتے ہیں تو ایسی تحریکیں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ اگر ایسا ہونا ہوتا تو آج ہٹلر یا اسٹالن دنیا کے کامیاب ترین حکمران ثابت ہوتے، یا وہ اس وقت بھی دنیا پر حکمرانی کر رہے ہوتے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ میں نے مغربی پاکستان کا رویہ دیکھ کر اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ ملک 6ماہ کے اندر اندر مغربی پاکستان سے الگ ہو جائے گا کیونکہ اس وقت کوئی ڈائیلاگ کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کی بات نہیں کر رہا تھا۔ شاید یہ اس لیے تھا کہ ہم نے شیخ مجیب الرحمن سے نفرت کا بیج بویا ہوا تھا، ہم اسے کسی صورت بھی قبول نہیں کرنا چاہ رہے تھے۔ مطلب بات قومیت سے نکل کر شخصیات کے پسند ہونے یا نہ ہونے پر آگئی تھی پھر ہم یہاں یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا مسئلہ تو ہمیشہ شخصیات سے رہا ہے، آپ فاطمہ جناح سے لے کر آج تک دیکھ لیں ، ہمار ی لڑائی کسی مسئلے پر نہیں بلکہ شخصیات سے ہوتی ہے، اس وقت مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن عوام میں پاپولر تھے، آج بانی تحریک انصاف نے لوگوں کے دلوں میں گھر کیا ہوا ہے۔ کیا پاکستان میں کوئی سیاستدان محب وطن بھی رہ گیا ہے؟ یا سارے غدار ہیں؟ اگر نہیں تو یہ ہماری غلطی نہیں کہ ہم آج بھی وہی کارنامے دکھا رہے ہیں۔ اس وقت بھی شیخ مجیب الرحمن اپنے حق کے لیے آواز بلند کرتے رہے، مگر کسی نے نہ سنی۔ آج بھی ویسا ہی ماحول بنا دیا گیا ہے۔ ہم کبھی عوامی مسائل سے لڑائی نہیں لڑتے، کبھی ہم نے عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک دوسرے کو چیلنج نہیں کیا، لہٰذاجب تک ہم عوامی مسائل پر بات نہیں کریں گے، اپنے مسائل بات چیت کے ذریعے حل نہیں کریں گے، ہم ایسے ہی مسائل سے دوچار رہیں گے۔ بقول شاعر مجھ سے زیادہ کون تماشہ دیکھ سکے گا بہرحال میں یہاں یہ نہیں کہہ رہا کہ بلوچستان اور کے پی کے میں حالات خراب ہیں تو باقی دونوں صوبوں میں بہتر ہیں۔ آج پنجاب میں بھی آوازوں کو دبانے کے لیے ہر ہتھکنڈہ استعمال کیا جا رہا ہے لیکن اس کے برعکس ہم نے آج تک اپنی کوئی غلطی تسلیم نہیں کی۔ 1947 سے آج تک ہم نے جتنی بھی غلطیاں کی ہیں، ہم کسی صورت نادم نہیں ہیں۔ آج بھی ہم جو غلطیاں کر رہے ہیں بجائے اس پر شرمندہ ہونے کے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے سے ہی عاری ہیں لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی مسائل کو سمجھتے ہوئے ہمیں ایک تھنک ٹینک بنانے کی ضرورت ہے۔ یہاں بھی خلیج بدرجہ اتم موجود ہے،اس کی مثال آپ یہ بھی لے سکتے ہیں کہ 8فروری کے الیکشن میں عوام نے تحریک انصاف کو ووٹ ڈالا۔ یہ پنجاب والوں کا صبر نہیں تو اور کیا ہے؟ اور کیا یہ صبر دیرپا ہو سکتا ہے؟ مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں ولی خان کی یہ بات سچ ثابت نہ ہو جائے کہ آخری جنگ پنجاب سے لڑی جائے گی لہٰذامیں اس کالم میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ ابھی بھی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا وقت ہے، ابھی بھی یہ بات تسلیم کرلیں کہ کوئی بھی عقل کل نہیں ، سب انسان ہیں، انسان سے غلطیاں ہو جاتی ہیں، لیکن ان غلطیوں سے سیکھیں گے نہیں تو ہمیشہ تباہی کی طرف جاتے رہیں گے ،نہیں یقین تو آپ جرمنی اور جاپان کی ترقی کی بڑی وجہ ہی یہی ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں شکست کے بعدا نہوں نے سب سے پہلے معافی مانگی، کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے، اس کے بعد انہوں نے اپنی غلطیوں کو سدھارا اور آج وہ دنیا کی بڑی معیشتوں میں سے ایک ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here