تجزیہ: مجیب لودھی
بنگلہ دیش میں عوامی طاقت کا حالیہ مظاہرہ بہت سے ممالک اور حکومتوں کے لیے سبق آموز مثال ہیں ، خاص طور پر پاکستان کیلئے بھی ،کسی بھی جماعت کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنانا عوامی طاقت کو اپنے خلاف کرنے کے مترادف ہے ، جیسا کہ بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ نے جماعت اسلامی کو انتقام کا نشانہ بنایا تو قدرتی نظام نے اپنا راستہ خود بنایا ، اسی طرح پاکستان میں بھی اسٹیبلشمنٹ کو چاہئے کہ وہ پی ٹی آئی اور عمران خان کو انتقام کا نشانہ بنانا بند کرے کیونکہ اس سے عوامی طاقت ان اداروں کیخلاف اُمڈ رہی ہے ، بنگلہ دیش میں جولائی میں حکومت کے ملازمتوں کے لیے متنازعہ کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع ہونے والا طلبہ کے احتجاجی مظاہروں کا اختتام پیر کو وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے استعفیٰ دے کر ملک سے فرار ہونے فوج کی جانب سے عبوری حکومت بنانے کا اعلان کرنے پر ہوا۔فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق 76 سالہ وزیراعظم شیخ حسینہ کی آمرانہ حکومت کا خاتمہ کرنے والے مظاہروں میں ایک ماہ سے زیادہ عرصے میں کم از کم 300 افراد مارے گئے۔یہاں پانچ اہم تاریخیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ کس طرح مظاہروں نے تقریباً 17 کروڑ کی آبادی والے جنوبی ایشیائی ملک میں حکومت کو گرایا، یونیورسٹی کے طلبہ نے سڑکوں اور ریلوے لائنوں کو بند کرنے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کیں تاکہ پبلک سیکٹر کی ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم میں اصلاحات کا مطالبہ کیا جا سکے۔ان کا کہنا تھا کہ اس سکیم کا استعمال حسینہ واجد کی حکمران عوامی لیگ کے وفاداروں کو نوازنے کے لیے کیا گیا۔حسینہ واجد نے جنوری میں حقیقی مخالفت کے بغیر ووٹنگ کے بعد وزیراعظم کے طور پر پانچویں مرتبہ کامیابی حاصل کی۔ ان کا کہنا تھا کہ طالب علم ‘اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔مظاہروں میں پہلی اموات ریکارڈ کی گئیں اور جھڑپوں میں چھ افراد مارے گئے۔ ایک دن بعد جب ڈھاکہ میں مظاہرین اور حکومت کے حامیوں نے ایک دوسرے پر لاٹھیاں برسائیں اور اینٹوں سے حملہ کیا۔حسینہ واجد کی حکومت نے ملک بھر میں سکول اور یونیورسٹیاں بند کرنے کا حکم دے دیا۔طالبات نے حسینہ کی طرف سے آفر کو مسترد کر دیا، اس کے ایک دن بعد جب انہوں نے پرسکون رہنے کی اپیل کی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ احتجاج میں ہونے والے ہر ‘قتل’ کی سزا دی جائے گی۔مظاہرین ‘ڈکٹیٹر کو نکالو’ کے نعرے لگا رہے تھے اور سرکاری نشریاتی ادارے بنگلہ دیش ٹیلی ویژن کے ہیڈ کوارٹر اور درجنوں دیگر سرکاری عمارتوں کو نذر آتش کر رہے تھے۔ حکومت نے انٹرنیٹ بند کر دیا۔جھڑپوں میں کم از کم 32 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے، جو چوبیس گھنٹے کرفیو اور فوجیوں کی تعیناتی کے باوجود جاری رہے۔بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ، جسے ناقدین حسینہ کی حکومت کی ربڑ سٹیمپ کے طور پر دیکھتے ہیں، نے ملازمتوں کے کوٹے کو دوبارہ متعارف کرانے کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا لیکن اس فیصلے سے مظاہرین خوش نہ تھے اور ان کا مطالبہ تھا کہ بنگلہ دیش کی پاکستان کے خلاف 1971 کی آزادی کی جنگ سے ‘آزادی کے جنگجوؤں’ کے بچوں کے لیے مخصوص ملازمتیں مکمل طور پر ختم کر دی جائیں۔حسینہ واجد ہیلی کاپٹر کے ذریعے ڈھاکہ سے فرار ہوئیں جب ہزاروں مظاہرین نے ان کے محل پر دھاوا بول دیا۔ اس کے بعد لاکھوں افراد سڑکوں پر جشن منا رہے تھے، کچھ بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں کی چھت پر رقص کر رہے تھے۔