قائدِ اعظم محمد علی جناح کی میراث!!!

0
61

25دسمبر کا دن جب کرسمس کی خوشیاں لے کر آتا ہے تو اس کے ساتھ ہی ایک عظیم قائد کی یاد بھی تازہ کرتا ہے ، آج ہمیں قائد اعظم محمد علی جناح کی عظیم کاوشوں کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جس طرح انھوں نے تن تنہا جدوجہد سے پاکستان کو دو بڑی طاقتوں سے آزاد کرایا ، اس کو بھی خراج تحسین پیش کیاجانا چاہئے۔قائداعظم محمد علی جناح 71سال کی عمر میں پاکستان اور پاکستانیوں کو داغِ مفارقت دے گئے۔ وہ ایک انتہائی ذہین وکیل، ایک کھرے سیاستدان اور ایک مہربان رہنما تھے۔ انکی زندگی، وڑن اور کارنامے قابلِ تقلید ہونے کے ساتھ رہنمائی کے بیشمار مواقع کے حامل ہیں۔ قائد نے پاکستان جیسے ناقابلِ یقین معرکے کو ممکن بنایا، قائد کی رہنمائی اور انکے افکار ہمیں خوشحالی اور ترقی کی گم کردہ منزل واپس دلا سکتے ہیں۔ قوم کا فرض ہے کہ وہ اس عظیم المرتبت انسان کا شکریہ ادا کرے اتحاد، ایمان اور نظم و ضبط پر عمل پیرا ہونا اس کا بہترین طریقہ ہے۔ داخلی اور خارجی دونوں طرح کے چیلنجز سے نمٹنے کا راستہ قائداعظم کی زندگی اور طرزِ عمل میں پوشیدہ ہے۔قائد کے بعد، افسوس کہ انکی جگہ لینے والا کوئی دوسرا نہیںتھا۔جس سیاسی و سماجی نظام کی انہوں نے آبیاری کی تھی، اس کا نقشہ ہی بدل دیا گیا اور کچھ سال بعد اسکا مکمل خاتمہ ہوگیا۔ قائداعظم بنیادی طور پر جمہوریت پسندتھے۔ انکی تقریریں اور فرمودات اداروں کی افادیت و اہمیت کے حوالے سے مکمل رہنمائی کرتے ہیں۔ وہ پختہ یقین رکھتے تھے کہ، ”جمہوریت کی بدترین شکل بہترین آمریت سے کہیں زیادہ بہتر ہے”۔ انکا جمہوریت کا تصور جدید ترقی یافتہ فلاحی اسلامی ریاست پر مبنی تھا۔ قائد کے پیش نظر، مغربی جمہوریت کے تصورات اور اسلامی اقدار کے مابین غیر متصادم امتزاج کا نظریہ تھا۔ حکمرانی کے قوانین جو قرآن اور شریعت کے اصولوں کی ترجمانی کرتے ہیں، پاکستان کیلئیاب بھی بہترین نمونہ ہیں۔ قائد کے پاکستان میں اشرافیہ، جاگیرداری، سرمایہ داری اور ا?مریت کیلئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ وہ باہمی ترقی پر یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے کبھی طاقت کے بے دریغ استعمال کی حمایت نہیں کی۔وہ مثبت مکالمے، دلیل اور فطری انصاف پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ وہ اکثریت کی رائے کا احترام کرنے کے اصول پر سختی سے کاربند رہے۔آج کئی دہائیوں بعد بھی جمہوریت ہی پاکستان کیلئے آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ متعدد فوجی آمریتوں، کرپٹ حکومتوں اور پرتشدد سماجی و سیاسی تحریکوں کے بعد بھی، نجات اسی آسان حل میں مضمر ہے۔ اکثریت کی حقیقی نمائندگی ہی حقیقی ترقی تک پہنچا سکتی ہے۔قائد اعظم کو جدیدیت اور اصلاحات سے پیار تھا۔وہ برصغیر میں جدید ترین نظریات کے حوالے سے سب سے زیادہ مشہور تھے۔ جب وہ لندن سے اپنے وطن واپس آئے تو وہ سب سے اچھا لباس پہننے والے، انتہائی نامور اور ماہر وکیل تھے۔ نہ صرف لباس میں، بلکہ اپنے خیالات میں بھی وہ انتہا کے نفاست پسند تھے۔ 1920ء اور 30کی دہائی میں دنیا استعمار کی ناانصافیوں سے آگاہ ہو چکی تھی۔ غلامی کی زنجیریں کمزورپڑرہی تھیں۔قائدِ اعظم محمد علی جناح کو اس کا علم تھا انہوں نے برصغیر کی آزادی کیلئے جدوجہد شروع کر دی۔ وہ اتحاد اور ہم آہنگی پر یقین رکھتے تھے۔ وہ اپنی مشرقی اسلامی اقدار کے سچے پیرو کار تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ، ان کی تقاریراور طرز عمل ان کے جدید تشخص کو ظاہر کرتے تھے۔ قائد مسلم امہ (ملت اسلامیہ) کی اصلاح پر یقین رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ پاکستان ان میں سے ایک ایسی روشن خیال قوم بنے، جواسلام کی اقدار کو نئے معنی بخشے اور مغرب سے کہیں بہترہو۔ پاکستان میں بہت سے دھڑے اب بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مذہب اور ہماری روایات ہی ہیںجو ہمیں آگے بڑھا سکتی ہیں۔ مناسب اصلاح اور جدت کے بغیر، ایک فلاحی ریاست کا خواب ہمیشہ ایک خواب رہے گا۔ قائد کو 1945 میں بھی فلسطینیوں کی حالت زار کا اندازہ تھا۔ ہرگزرتے سال کے ساتھ، ہم اپنے قائد کی عظمت اور ان کے ہمارے لیے چھوڑے گئے زریں اصولوں سے زیادہ واقف ہوتے جا رہے ہیں۔ خدا ہمارے قائد کی روح کو سکون بخشے اور ہمیں ان کے خوابوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو انہوں نے ہمارے لئے دیکھے تھے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here