خطے کا امن اور مسئلہ کشمیر!!!

0
16

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتریس سے ملاقات میں جنوبی ایشیا میں امن کی خاطر مسئلہ کشمیر کے حل کو ناگزیر قرار دیا۔آرمی چیف نے کہا کہ جموں و کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کی یکطرفہ ،غیر قانونی بھارتی کوشش سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔انہوں نے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیا۔آرمی چیف نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات میں جہاں تنازع فلسطین پر اپنی تشویش کا اظہار کیا وہاں تنازع کشمیر پر بھارت کے اشتعال انگیز طرز عمل کی بابت ممکنہ پاکستانی رد عمل سے آگاہ بھی کیا۔آرمی چیف کے موقف سے دنیا کو باور کرانے میں آسانی ہو گی کہ پاکستان اور بھارت اس تنازع کی وجہ سے تصادم کا شکار ہوئے تو پورے خطے کی ترقی اور امن داو پر لگ سکتے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے بھارت کے ساتھ دوستانہ اور پرامن تعلقات کی خواہش اکثر بھارتی قیادت کے سخت اور الزام تراشی پر مبنی ردعمل کی وجہ سے حوصلہ شکنی کا شکارہوتی رہی ہے۔ 11 اگست 2014 کو بھارتی فوجیوں نے ایل او سی کے ساتھ دو شہریوں کو ہلاک کر دیا لیکن پاکستانی فوج نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور جوابی کارروائی نہیں کی۔ پاکستان بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کے حوالے سے ہر ممکن حد تک لچک دکھا رہا ہے لیکن بھارت کی جانب سے ردعمل زیادہ حوصلہ افزا نہیں ۔یہ ایک واقعہ نہیںسن 2023 تک ایسے کئی واقعات۔دہشت گردانہ مداخلت، سرحد پر چھیڑ چھاڑ اور پاکستان دشمن سفارتی سرگرمیوں کی صورت میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر دونوں ممالک کے درمیان تنازع کی وجہ بنا ہوا ہے۔ جب تک تنازع کا کوئی پرامن تصفیہ نہیں ہوتا، کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان دشمنی بڑھانے کی صلاحیت کا حامل رہے گا۔ حل طلب علاقائی تنازع کی تاریخ 76 سال پرانی ہے جب دونوں ممالک کو 1947 میں انگریزوں سے آزادی ملی۔ایک بڑے ملک کے لیڈر کے طور پر نریندرمودی کو بہت زیادہ کھلے دل سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان امن اور علاقائی اقتصادی انضمام کے لیے بھارت کے ساتھ تعاون کا خواہاں ہے اور مسئلہ کشمیر کے حل میں بھارت کے کردار کا بھی خواہش مند ہے ۔دنیا تیزی سے بدل رہی ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہبھارتی قیادت یہ سمجھ لے کہ پاکستان کی فعال حمایت کے بغیر بھارت ترقی کی ان بلندیوں تک نہیں پہنچ سکتا جس کا وہ تصور کرتا ہے۔ علاقائی خوشحالی دونوں ممالک کے حق میں ہے۔ بھارتی قیادت کو باہمی اعتماد پیدا کرنے کے لیے لچک دکھانیکی ضرورت ہے۔ تاکہ امن کو داو پر لگائے بغیر ٹھوس بنیادوں پر امن و استحکام قائم ہو۔ بھارت نے یکم جنوری 1948 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع کیا۔ کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر سب سے پرانا مسئلہ ہے۔سلامتی کونسل نے کشمیر میں استصواب رائے کے انعقاد کے حوالے سے متعدد قراردادیں پاس کیں لیکن بھارت کی عدم تعمیل پرعالمی ادارے کی جانب سے کوئی کارروائی شروع نہیں کی گئی۔ اس بے عملی کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کشمیر پر قراردادیں اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب چھ کے تحت منظور کی گئیں جن کا چارٹر کے باب سات کے تحت منظور کردہ قراردادوں کے برخلاف کوئی لازمی نفاذ نہیں ہے۔حق خودارادیت کے معاملے کا ایک حصہ، مسئلہ کشمیر کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے بہانے حل کیا جا سکتا تھا کیونکہ 1990 کی دہائی میں سابق یوگوسلاویہ اور افریقہ میں انسانی بحران نے دنیا کی توجہ حاصل کی۔ تب سے، انسانی مداخلت کا اصول جسے بعد میں ‘حفاظت کی ذمہ داری’ کے طور پر نئے سرے سے متعین کیا گیا۔ یہ اصول ان ریاستوں پر لاگو کیا گیا جو بڑی طاقتوں کے لیے جیو سٹریٹجک اہمیت رکھتی ہیں جبکہ بہت سی دوسری ریاستوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کسی کا دھیان نہیں جاتا۔ کشمیر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عالمی طاقتوں کی بے حسی کی حقیقی مثال ہے۔کشمیر کی اہمیت کا ایک اور متعلقہ پہلو علاقائی امن اور استحکام میں اس کی مرکزیت ہے۔ 1998 میں بھارت اور پاکستان کے ایٹمی قوت بن جانے کے بعد دونوں نے 1999 میں کارگل میں جوہری چھتری کے نیچے ایک محدود جنگ لڑی ہے۔اگرچہ سرد جنگ کے برسوں میں کشمیر کو جنوبی ایشیا تک سپر پاور دشمنی کی توسیع اور پاکستان کے مغربی اتحاد کے نظام کا حصہ ہونے کی وجہ سے اہمیت ملی، امریکی پالیسی سازوں نے جنوبی ایشیا میں امن قائم کرنے کے لیے کشمیر کے حل کو آگے بڑھانے کی کوشش کی امریکی سفارت کاروں نے برسوں کی ناکامی سے یہ سیکھا کہ “کشمیر سے نمٹنا بہت مشکل تھا اور اس لیے اسے نظر انداز کیا گیا۔” اسی طرح سوویت یونین نے بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان 1965 کی جنگ کے بعد تاشقند معاہدے کی ثالثی کی لیکن سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی کشمیر بڑی طاقتوں کے ایجنڈے سے ہٹ کر ایک بھولا بسرا معاملہبن گیا۔ صدر بش اور صدر اوباما نے پاک بھارت تنازع میں کشمیر کی مرکزیت کو تسلیم کیا لیکن وہ بھارتکو مذاکراتی عمل شروع کرنے پر مجبور کرنے کے علاوہ کوئی اہم کردار ادا نہ کر سکے۔کشمیریوں کے مصائب کا سلسلہ بدستور جاری ہے ۔پانچ اگست 2019 میں بھارت نے اس کی خصوصی آئینی حیثیت یکطرفہ طور پر ختم کردی، چند ہفتے قبل بھارتی سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو جائز قرار دیا ہے ۔حالیہ فلسطین اسرائیل جنگ میں اقوام متحدہ کا کردار غیر موثر دیکھ کر کئی خدشات جنم لے رہے ہیں کہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کی جدوجہد اقوام متحدہ کی طرف سے کب تک نظر انداز رہے گی گی؟
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here