فلسطین کی آزادی کی تنظیم پی ایل او جو الفتح، بی ایف ایل پی، ڈی ایف ایل پی، پی پی پی، پی ایل ایف، اقصا فدا، اے ایل ایف اور دوسری تنظیموں پر مشتمل اتحاد تھا جس کا وجود 28مئی1964ء میں لایا گیا تھا جو فلسطینیوں ایک ترقی پسند، عرب قوم پرست سوشلسٹ، بین عرب ازم سیکولر، مارکیٹ کے نظریات کی قابل تھی جس کا نظریہ سیاست آزادی تھا جو سامراجی استحصالی نوآبادی طاقتوں کے خلاف تھی جن کو روس چین کیوبا وغیرہ ترقی پسند طاقتوں کے علاوہ پوری تیسری دنیا کے اتحاد کی حمایت حاصل تھی جس میں بھارت مصر، سابقہ چیکو سلواکیہ یوگو سلامیہ اور دوسری آزادی پسند قوتوں کی مکمل حمایت حاصل رہی ہے۔ جن کی اکثریتی ریاستوں نے اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم نہیں کیا تھا۔ علاوہ ازیں پی ایل او میں تمام مسلمان یہودی اور عیسائی شامل تھے جس میں جارج جشن، لیلہ خالد وغیرہ نام بہت مشہور ہوئے جو فلسطین کی آزادی کی خاطر اسرائیلی ہوائی جہاز اغوا کرنے میں شامل تھے۔ مزید براں جب1967میں عرب اور صہیونی طاقت اسرائیل کے درمیان جنگ ہوئی جس میں امریکہ اور یورپ نے صہونیت کی کھل کر حمایت کی تھی جن کی مدد سے اسرائیل نے اپنی توسیع پسندی کو برقرار رکھتے ہوئے عرب علاقوں مصر اور اردن شام کے علاقوں عیسائی، ویسٹ بنک نمازہ اور گولدن پہاڑیوں پر قبضہ کرلیا جس میں ویسٹ بنک اور نمازہ میں فلسطین سے نکالے گئے قدیم فلسطینی باشندوں کو دھکیلا گیا جن کی تعداد آج پندرہ ملین ہے۔ جبکہ اسرائیلیوں کی آبادی چند فلسطین کے برابر ہے۔ آخر کار دنیا بھر کے دبائو میں آکر امریکی شائشی میں1993میں اوسلوما معاہدہ ہوا کہ جس میں اسرائیل اور فلسطین دو الگ الگ ریاستیں اور فلسطین ایک آزاد اور جس کے ردعمل میں خودمختار ریاست کہلائے گی اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم روبین کو قتل کر دیا گیا تھا جنہوں نے اس معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ جس کے بعد اسرائیل نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطینیوں کے خلاف ہماں وقت لشکر کشی اور فوج جاری رکھی ہے جس میں ویسٹ بنک میں دنیا بھر سے یہودیوں کو بلا کر بسایا گیا ہے۔ یروشلم جو اوسلو معاہدے میں ایک متنازعہ شہر کہلایا تھا اس پر مکمل قبضہ کرلیا گیا جو ایک تینوں مذاہب کا مقدس شہر ہے یہاں مسلمانوں عیسائیوں اور یہودیوں کی عبادت گاہیں ہیں جو انبیائے اکرام کا شہر اور مسلمانوں کا قبلہ اول کہلاتا ہے۔ یہاں سے حضور پاک معراج پر تشریف لے گئے تھے۔ تاہم آج سے اسرائیل فرعونوں اور ہٹلر کے نقش قدم پر چل کر فلسطینی بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور جوانوں کا قتل عام کر رہا ہے جس کو اب تک روکنا مشکل ہوچکا ہے۔ جس کے سامنے دنیا بھر کی طاقتیں بے بس نظر آرہی ہیں۔ مسلمان ممالک حسب معمول بیانوں، کھلیانوں، میدانوں اور زبانوں کی دھمکیاں دینے نظر آتے ہیں۔ کسی بھی طاقت نے آگے بڑھ کر دنیا کے بے بس طبقہ فلسطینیوں کی مدد نہیں کی ہے۔ فلسطین آج دنیا کا وسیع ترین جیل خانہ ہولوگوسٹ بن چکا ہے۔ یہاں ہر روز انسانوں کا قتل جاری ہے جس پر انسانیت قائم کر رہی ہے جس کے خلاف دنیا بھر کے باضمیر اورر انسان دوست لوگ احتجاج کر رہے ہیں جس میں امریکی سرکاری اہلکاروں اپنی نوکریوں سے مستعفی ہوچکے ہیں مگر دنیا کی نام نہاد جمہوریت اور آزادی کے چوکیداری یورپ اور امریکہ انسانی بچوں کے قتل عام پر جشن منا رہا ہے۔ دنیا کی قدیم ریاست فلسطین کی باسی تباہ وبرباد ہوچکے ہیں جن کے باسیوں کو گھر بدر اور وطن بدر کر رکھا ہے جس پر انہیں دہشت گردوں کا خطاب دیا جاتا ہے دنیا کی واحد دہشت گرد ریاست صہونیت طاقت ہے جس کے چند ہفتوں میں ہزاروں انسانوں کو قتل اور زخمی کر ڈالا ہے۔ بہرحال آج جو ایل او کہاں چلی گئی ہے جس کے یاسر عرفات چیئرمین اور جارج بش جنرل تھے جنہوں نے اسرائیل کی دنیا بھر میں تنہا کر رکھا تھا۔ جس کی جگہ آج حماس نے لی ہے جو مصری بردار ہڈ اور بینائی کی طرح مذہبی گرو سے مگر کرتا کیا نہ کرتا پر عمل کرتے ہوئے حماس نے اسرائیلیوں صہیونیت کو ناک چنے چبا دیئے ہیں جس کا فیصلہ اب تاریخ کرے گی کہ اسرائیل کو بھی امریکہ کی طرح ویت نام اور افغانستان سے اپنی آخری فلائیٹ لے کر بھاگنا ہوگا شاید یہ وقت دور نہیں ہے۔
٭٭٭٭