ایک خاتون جج کو عوامی جلسے میں دھمکی دینے والے سیاستدان کیخلاف جس عدالت نے توہین عدالت کا سوٹوموٹو نوٹس لیتے ہوئے مقدمہ قائم کیا تھا اسی عدالت نے عمران خان کے غیر مشروط معافی مانگے بغیر معاف کرکے اعلیٰ عدالتی تاریخ میں ایک نئی مثال رقم کرتے ہوئے طاقتور کے سامنے جھکنے کی ریت ڈال دی۔ اگر توہین عدالت کا مقدمہ ہی نہیں کیا جاتا اور اگر اس واقعہ کے نتیجے میں توہین عدالت ہوئی تھی تو پھر اسے ایک منطقی انجام تک پہنچانا چاہئے تھا۔ ماضی میں ایک سیاسی کارکن نہال ہاشمی پر بھی توہین عدالت کا مقدمہ قائم کیا گیا تھانہال ہاشمی نے غیر مشروط معافی مانگی تھی لیکن انہیں معافی کے باوجود ایک مہینہ قید اور پانچ سال کی نااہلی کی سزا دے دی گئی تھی ایک یہی قانون کے تحت دو سزائیں طاقتور کیلئے رہائی بھی نہیں مقدمہ خارج نہال ہاشمی جیل بھی گئے اور پانچ سال کی نااہلی؟؟ اب اگر اعلیٰ عدالتوں نے توہین عدالت کو مذاق بنا ہی ڈالا ہے۔ تو پھر بچارے نہال ہاشمی کی نااہلی ختم کرکے ایک مہینہ قید کی سزا کو کالعدم قرار دے دیا جائے۔ ورنہ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ پاکستان میں جنگل کا قانون رائج ہے جہاں پرMight is Rightیعنی طاقتور کا طوطی بجتا ہے کسی معاشرے میں دو قانون نہیں ہوسکتے کہ جو آپ کے ساتھ بدتمیزی کرے اس کے ساتھ رعایت جو معافی مانگے وہ سزا کا مستحق!؟ یا تو پھر ہے سمجھا جائے کہ نیازیوں کیلئے اور قانون ہے اور ہاشمیوں کیلئے اور؟ کیا ہم یزیدی دور میں لوٹ آئے ہیں؟ قائداعظم کا پاکستان تو ایسا نہیں ہوسکتا، کیا سیلاب اچھے برے کی تمیز بہا کر لے گیا صحیح اور غلط کا امتیاز ہمارے اندر ڈوب چکا ہے۔
اب ہمارا مطالبہ ہے کہ نہال ہاشمی سے معافی مانگ کر ان کی نااہلی ختم کی جائے اور انہیں ایک مہینہ جو پابند سلاسل رکھا گیا اسکے لئے ہرجانہ انہیں ادا کیا جائے میں ذاتی طور پر نہال ہاشمی کو نہیں جانتا لیکن آج کے بعد ہر عام اور کمزور پاکستانی نہال ہاشمی بن گیا ہے۔ جس پر قانون کی تلوار شدت سے گرا دی جاتی ہے۔ جبکہ طاقتور اور دجالی قوتوں کا پیروکار آسانی سے تلوار کی دھار کا رخ انصاف کے رکھوالوں کی طرف کرکے آرام سے نکل جاتا ہے۔ یہ کہاں کا قانون ہے؟ یہ کیسا انصاف ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کو بیگناہی کے باوجود تختہ دار تک اور ایک اپنے ہی تراشے ہوئے رہنما کو سات فون(قتل) معاف کی رعایت دیکر یہ بتایا جاتا ہے کہ اصل حاکموں اور محکموں کیلئے قانون بھی الگ ہیں سزائیں بھی وکھری ہیں یہ پیغام انتہائی خطرناک ہے اور پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے مترادف ہے۔ آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ بھی طوالت پکڑ گیا ہے باخبر ذرائع جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا عندیہ دے رہے ہیں ساتھ میں یہ بھی خبر ہے کہ جنرل باجوہ امریکہ کے دورے پر روانہ ہو رہے ہیں۔ اور یہ بھی شنید ہے کہ انکے ہمراہ ایک اور سینئر جنرل بھی اس اعلیٰ وفد میں شامل ہیں۔ جنکا نام ممکنہ آرمی چیف کی فہرست میں شامل ہے لیکن یہ بھی کہا جارہا ہے کہ امریکہ جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا حامی ہے،اب دیکھئے ٹھرتی ہے جاکر نظر کہاں؟؟؟ ادھر سیلاب کے پانی نے لاڑکانہ شکارپور دادو سیوہن اور حیدرآباد میں نشبی علاقوں میں اب تک موجود رہ کر سندھ حکومت کی ناقص حکمت عملی اور بدترین کارکردگی کو پی پی پی کیلئے ایک بہت بڑا مسئلہ بنا دیا ہے۔ سندھ کی عوام تو غیر مطمئن ہیں اب درمیانی قیادت اور کارکنوں نے بھی شور مچانا شروع کردیا ہے جسے پولیس اور انتظامیہ کے ذریعہ دبانے کی کوشش کی جارہی ہے دوسری طرف کچھ حلقہ اس ناقص کارکردگی اور نااہلی کو ایک سوچی سمجھی سازش کے ذریعے ذوالفقار علی بھٹو اور انکی شہید بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کو اس کے گڑھ تعبیر کر رہے ہیں۔ پنجاب میں سے تو اس جماعت کو جسکی بڑی اکثریت تھی غیر سیاسی سوچ رکھنے والے لوگوں نے قربانی دینے والے کارکنوں کی بے قدری اور پارٹی منشور سے انحراف کرکے مکمل طور پر ختم کردیا اب سوائے چند اہم شخصیات کے پنجاب میں اس بڑی جماعت کا کوئی نام لیوا نہیں جس سرزمین پر ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کا خون بہایا گیا وہاں سے کوئی منتخب رکن نہیں پی پی پی کی بدقسمتی تو دیکھئے کہ جہاں سے خورشید چیئرمین آغا ریاض السلام راجہ انور اور راجہ شاہد، نصر راولپنڈی کے منتخب اراکین تھے وہاں آج کوئی ایک ممبر صوبائی اسمبلی تو کیا کونسلر تک نہیں کس کو ذمہ دار ٹھہرائیں آج گڑھی خدا بخش کی قبروں کے مکین بھی اداس ہونگے۔
٭٭٭٭٭