پیکا PECAحیرت کی بات ہے کہ2016ء میں پاس ہونے والا قانون جو آج تک کبھی سامنے نہیں لایا اور آج اس قانون جو میاں نوازشریف کے دور حکومت2016ء میں اسمبلی سے پاس کیا گیا ،اس کے لئے آج عمران خان یا تحریک انصاف کی حکومت کو مورد الزام کیوں بنایا جارہا ہے۔کبھی کسی صحافی کو2016ء سے اب تک اسی طرح نہیں گرفتار کیا گیا مار پیٹ کی گئی جس طرح محسن بیگ کے گھر والوں کو حراساں کرکے اٹھایا گیا۔تمام سیاسی جماعتوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ جو قوانین وہ اپنے مخالفین کے لئے تشکیل دیتے ہیں وہ ایک دن انہی کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔جب نواز شریف نے بیسویں ترمیم لانا چاہی تھی تو اس میں شق رکھی گئی تھی کہ ملزموں کو ضمانت کی سہولت نہیں ملے گی۔موجودہ حکومت نے تو اس سلسلے میں تو حد ہی کردی ہے۔پیکا کے قانون میں مراد سعید کو شکایت کے بعد جو ترامیم لائی گئی ہیں اس میں وارنٹ کی ضرورت کو بھی ختم کر دیا گیا ہے اور ضمانت کا حق بھی ختم کر دیا ہے۔مراد سعید کا تو بہانہ ہے عمران خان کی اصل سوچ کھل کر سامنے آنے لگی ہے۔آج اگر محسن بیگ کے ساتھ ہوا ہے تو کل پھر کسی اینکر، صحافی، تجزیہ نگار یا سیاسی مخالف کو بھی اس الزام کے تحت گھسیٹا جائے گا۔سائبر کرائم کے نام میں اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگانے کا کالا قانون بنایا گیا ہے اس طرح کا قانون اس سے پہلے جنر ایوب خان کی پہلی مارشل لاء میں تو لگا تھا لیکن اس پابندی میں اخبار کو چھپنے سے پہلے فوج کے افسران دیکھ کر اجازت دیتے تھے کسے اس طرح ذلیل ورسوا نہیں کیا جاتا تھا۔محسن بیگ کی ذات سے ہزار اختلاف ہوسکتے ہیں ہر صحافی یا اخباری دنیا کے آدمی کا مزاج اور ہوتا ہے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے صحافی اس مشکل گھڑی میں محسن بیگ کے ساتھ ہیں۔جس ٹی وی پروگرام کی وجہ سے محسن بیگ پر یہ مشکل گھڑی آئی، اس میں ایک ریٹائرڈ جنرل شعیب بھی شریک گفتگو تھے اور انہوں نے بھی محسن بیگ کی بات سے اتفاق کیا تھا لیکن ان سے تو پوچھ گچھ نہیں ہوئی۔ترمیمیں آگئیں اور بیگ صاحب پر ظلم کا پہاڑ ڈھا دیا گیا ہے۔جس معاشرے میں ایسی تنگ نظری آجائے وہاں پھر دم گھٹنے لگے لگا اور کیا ہوگا۔مہنگائی نے تو ویسے عوام پر ظلم ڈھائے اگر آپ شکایت بھی نہیں کر سکیںگے تو پھر صحافی یا تو کام چھوڑ دیں یا پھر گھروں میں بند ہوجائیں۔محسن بیگ نے ریحام خان کی کتاب کا حوالہ دیا تھا جس پر کوئی پابندی نہیں ،دنیا بھر میں وہ کتاب کھلے عام بیچی جارہی ہے۔اگر ٹی وی کے پروگرام میں سابقہ خاتون اول کے کتاب کا حوالہ دیا گیا تو کونسا آسمان گر گیا۔کسی بھی قانون کے تحت یہ موجودہ صورت میں نئی ترامیم کے ساتھ آرڈیننس کی خلاف ورزی میں نہیں آتا۔اسی لئے تو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ بھی چیخ اٹھے اور انہوں نے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر سائبر کرائم کی کلاس لے لی۔انہوں نے ڈائریکٹر سے سوال کیا کہ کیا آپکے فرائض میں یہ شامل ہے کہ عوام نمائندگان کی ساکھ کے محافظ بن بیٹھیں انہوں نے(چیف جسٹس) کو پوچھا کہ آپکے پاس کتنے مقدمہ شکایات پینڈنگ (یازیرالتوائ) ہیں۔ڈائریکٹر صاحب نے بتایا کہ چار ہزار سے زیادہ مقدمات زیرالتوا ہیںپھر بھی آپ عوامی نمائندوں کی خوشامد میں سرکاری وقت کا ضیاء کر رہے ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ ایک آزاد اور بہادر جج ہیں انکی بات ان جیسی بات کوئی اور جج صاحب نہیں کر پائیں گے۔
بہرحال آج پاکستان کی صحافتی تاریخ میں ایک سیاہ ترین دن سمجھا جائیگا اظہار رائے کی آزادی پہلے ہی کافی مجروح تھی لیکن ایسا کاری وار پہلے کبھی نہیں ہوا۔اب تو صحافی کا کام مزید جان جوکھوں والا کام ہوگا۔بغیر وارنٹ اور ضمانت کی گنجائش کے کسی صحافی کو کہیں سے بھی اٹھا لیا جائے۔کوئی قانونی تحفظ ہی نہیں رہالیکن سب سے افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ کوئی فوجی حکومت کے مارشلاء حکم سے نہیں بلکہ منتخب اسمبلی کے ارکان کی اکثریتی ووٹ سے پاس ہوا ہے اور ان بدقسمت ممبران بشمول وزیر موصوف نہیں جانتے کل یہی قانون ان پر جب استعمال ہوگا تو وہ رو رو کر ماتھا دیوار سے ٹکرائیں گے ،کہ ہائے ہم نے یہ کیا کیا؟ہم نے تو اپنے ہاتھ خود کاٹ کر اپنے پُر ظلم کردیا۔آج انکے عقل پر تالے پڑ گئے ہیں دیکھ نہیں پاتے ،سن نہیں سکتے، لیکن وقت آئے گا کہ پچھتاوے کے سوا ان کے پاس کوئی راستہ نہیں رہیگا۔
٭٭٭