اُسوۂ حسینی اور ہم !!!

0
104
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

نواسہ رسولۖ جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین نے کربلا میں جو لازوال قربانی اور جانثاری کی مثال قائم کی اس کی مثال شائد رہتی دنیا تک کوئی بھی نہ دے سکے ،رہتی دنیا تک یہ پیغام دیا کہ باطل کے خلاف حق کی سربلندی کے لئے اگر جان بھی دینی پڑے تو پرواہ نہ کرے ،جتنی بھی آزمائشیں آئیں خوشی خوشی سہہ کر حق کا جھنڈا بلند رکھے اور ظالم اور جابر کے سامنے کبھی سرتسلیم خم نہ کرے جہاں تک آپ کی شان کا تعلق ہے اس کی بھی کوئی مثال نہیں جن کی خاطر سرکار دو عالم نے اپنا سجدہ دراز کردیا۔ جس کو جنت کا دولہا قرار دیا جس کو اپنا وجود قرار دیا جس کے وجود کو اپنی نسل کا اجراء کیا جس کی محبت کو اپنی محبت فرمایا جس کے بارے سرکار نے فرمایا اے اللہ جو میرے حسین کے ساتھ پیار کرے تو بھی اس سے پیار کر ایسی شخصیت کے لئے ہمیں اس کی تابعداری کا حکم ہے۔ اس کی سیرت پر عمل کی ضرورت ہے۔ یہ بات تو ہمیں سمجھ آتی ہے کہ یزید قاتل حسین ہے۔ اس سے ہمیں نفرت ہے کیونکہ یہ کوئی معمولی جرم نہیں ہے مگر حضرت امام حسین یزید سے کیوں نفرت کرتے تھے۔ حالانکہ خارجیوں نے اگر حضرت امام حسین کے والد پر حملہ کیا تھا۔ تو اسی طرح یزید کے والد پر بھی حملہ کیا تھا۔ دونوں خارجیوں کے نشانے پر تھے مگر پھر بھی یزید سے نفرت کیوں تھی کوئی سبب تو ہوگا۔ لامحالہ یہی نتیجہ نکلے گا کہ یزید تھا تو مسلمان مگر اس کا کردار مشکوک تھا۔ اس کے گناہوں کی لمبی فہرست ہے زبان زیب نہیں دیتی اس لئے آپ نے ظالم، فاسق معلن، جابر کی بیعت نہیں کی تو گویا کہ ہمیں اسوہ حسینی اپنانے کی ضرورت ہے۔ ا سوہ حسینی سے کیا ووٹ کا صحیح استعمال ووٹ جس کے بارے میں ہم سننا نہیں چاہتے۔ ہم نے اسوہ حسینی کو تھوڑا دیکھنا ہے۔ ہم نے برداری گروپ جھتہ پارٹی کو دیکھنا ہے ،چاہے وہ شرابی ہوزانی ہو۔ یعنی اس کے اندر سارے یزیدی عیب ہوں۔ ووٹ ہم نے اسی کو دینا ہے جبکہ اللہ پاک کے پاک ترجمان سیدنا امام حسین کا اسوہ قرآن یہ ہے کہ سارے جہاں کے بدکردار لوگ ایک طرف ہوجائیں اور صاحب کردار اکیلا ایک طرف کھڑا ہو۔ فرمایا ووٹ اس اکیلے کو دو۔ولواعجبک کثرة الخبیث ڈھیر سارے بدمعاشوں بدکرداروں کا ایک طرف ہونا تمہیں تعجب میں نہ ڈالے۔ اصل میں ہم مولوی، واعظ، مجتہد، ذاکر کبھی نہیں چاہیں گے کہ لوگوں کو صحیح اسوہ حسینی سکھایا جائے کیونکہ ہماری جو روٹیاں لگی ہوئی ہیں۔ بند ہوجائیں گی وہ آپ کو فضائل، مصائب سنا کر رُولاء کر اپنی چاندی کھری کرے گا۔ سو ائے میرے بھولے بھالے بھائیو، ہوش کرو۔ دو دیگیں پکا کر دس بیس ہزار واعظ کی جیب میں ڈال کر خوش فہمی سے باہر نکلیں میں ثواب کا انکاری نہیں ہوں۔ یقیناً یہ سب کام باعث اجرو ثواب ہیں مگر اسوہ حسینی کو ہم کہاں رکھیں گے۔ کیا امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے فقط یہی کام کیا تھا۔ یا اپنے والد مکرم کے مشن کو آگے بڑھایا تھا۔ امام زین العابدین کی پوری زندگی گواہ ہے اپنے والد مکرم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پوری زندگی گزار دی مگر کسی ظالم جابر کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی لہٰذا ہمیں بھی ووٹ دیتے وقت دیکھنا ہوگا تاکہ ہمارا ووٹ کسی یزیدی صفت لیڈر کی جیب میں نہ چلا جائے اور ہم قیامت کے دن سیدنا امام علیہ السلام کے سامنے شرمسار ہوں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here