نگران حکومت کا غیر جانبدار ہونا لازمی ہے! !!!

0
49

وزیراعظم شہبازشریف نے اعلان کردیا ہے کہ موجودہ تمام اسمبلیاں اگست کے دوسرے ہفتے میں اپنی مدت پوری کرکے فارغ ہوجائینگی جس کے بعد نوے90دن کے اندر نگران حکومت کی نگرانی میں انتخابات کرائے جائیں گے۔ اب مختلف حلقوں کی طرف سے مختلف نام نگراں وزیراعظم کیلئے لئے جارہے ہیں۔ ایک بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے آنے والا الیکشن ہر لحاظ سے مشکل اور متنازع ہوگا۔ مسلم لیگ(ن) کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ اللہ کی طرف سے ایک موقعہ ملا ہے جس میں وہ اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرسکتی ہے یا ہمیشہ کیلئے ڈبو بھی سکتی ہے۔ اس لئے ہر قدم اور ہر فیصلہ سوچ سمجھ کر نا چاہئے ایسا نہ ہو کہ نہ خدا ہی ملانہ وصال صنم کے مانند نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔یہ سمجھ لینا چاہئے کہ دشمنوں سے بھی خطرناک نادان دوست میاں صاحبان کی عزت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا دیں اور انہیں اس غلط فہمی کا شکار بھی نہیں ہونا چاہئے کہ دوبارہ اقتدار کے ایوانوں تک انکی رسائی میں ان کی کامیاب حکمت عملی کا دخل ہے۔ وہ دعائیں اپنے بدترین دشمن کو جس کی بدترین غلطی نے انہیں اقتدار میں لانے کا سبب بنی ورنہ تو انکی واپسی تقریباً ناممکن بنتی جارہی ہے۔ مسلم لیگ نے اگر اب کی بار بھی وہی غلطیاں دھرائیں جو ماضی میں کیں تھیں تو اس سے بھی برا حشرا ہوگا۔ سب سے بڑا مشورہ بن مانگیں یہ ہوگا کہ تکبر، خودسری اور عقل قل سمجھنے والی روش سے دور رہیں جو انکے بدترین دشمن نے کرکے انہیں اقتدار کی مسند تک پہنچا دیا دوسرا مشورہ یہ ہوگا کہ اندرونی جماعتیں اور خاندانی اتحاد آپ کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے اسے نہ کھوئیں۔ ناراض ساتھیوں کو واپس لے آئیں البتہ شیخ رشید جیسے لوگوں سے دور رہیں۔ جماعت میں مشاورت کا عمل نیچے سے اوپر تک عام کریں جتنے زیادہ دماغ ملیں گے اچھی بات اور مشورے سامنے آئیں گے۔ یہ عمل پارٹی کو اکٹھا رکھنے میں بھی مدد گار ہوگا۔ زمان پارک والے عقل کل کا انجام دیکھ چکے ہیں۔ اور کبھی بھی مرے ہوئے گھوڑے کو لاتیں مت ماریں۔NO Body kicks a dead horscاگر آپ یہ عمل کریں گے تو آپ مرے ہوئے گھوڑے کی اہمیت بڑھائیں گے اور اپنی خباثت دکھائیں گےMOVE FORWORDآگے بڑھیں عوام کے مسائل پر توجہ دیں عوام کی بہتری کیلئے کیا کیا جاسکتا ہے؟ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہیں ایک متوازن اور مثبت سوچ والے آرمی سربراہ بلکہ افواج کے سربراہ میسر ہوئے ہیں انکے ساتھ بیٹھ کر مسائل کا حل نکالیں جنرل عاصم منیر بھی یہی چاہتے ہیں کہ ملکی اور عوامی مسائل کو مثبت رویے سے کام کرکے لوگوں کیلئے آسانی پیدا کریں۔ آج ملک کا بدترین مسئلہ بدعنوانی، چور بازاری، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع کی دوڑ ہے مسلم لیگ(ن) پر بدعنوانی کے بیشمار الزام لگ چکے ہیں۔ ان کیلئے یہ سنہری موقعہ ہے کہ وہ اس معاملے میں زیروٹالرنس کی پالیسی اپنا کر اپنے نام پر سے ہے داغ دھو دیں اپنے لوگوں سے بات کریں جو ہوگیا سو ہوگیا اب وہ کچھ نہیں چلے گا کیونکہ ملک اب اس بدکاری کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اب یہ نوازشریف اور انکی جماعت پر منحصر ہے کہ کیا وہ اس بری حالت سے باہر نکالنے والوں میں اپنا نام رکھوانا چاہتے ہیں یا آخری نکالنے والوں میں اپنا نام رکھوانا چاہتے ہیں یا آخری دھکا دیکر ڈوبنے والوں میں اپنا شمار کروانا چاہتے ہیں آخری بات میاں نوازشریف کے لئے یہ ہوگی کہ اگر اسٹیبلشمنٹ شہبازشریف کے ساتھ زیادہ سہولت محسوس کرتے ہیں تو آپ بھی مان جائیں آپ کے فرمانبردار جھوٹے بھائی ہیں وہ عمران خان کے منگولی دور کو بھی جھیل چکے ہیں۔ آپکی جماعت کی کامیابی آپ کی کامیابی ہے آپ ن لیگ کے ”سونیا گاندھی” بن جائیں آپ سب سے زیادہ مرتبہ وزارت اعظمیٰ سنبھالنے کی سعادت حاصل کرچکے ہیں۔میلہ ہمیشہ عروج پر چھوڑنا چاہئے۔ ورنہ ختم ہونا میلہ مایوسی اور ڈپریشن کا باعث بنتا ہے۔ مریم بی بی کو پنجاب کی وارث اعلیٰ سونپ دیجئے گا۔ آپ بغیر عہدے کے پارٹی سربراہ یا گائیڈ رہیں۔ اور اگر کوئی غلط کر رہا ہے تو اس پر نظر رکھیں۔ بدلہ لینے کی سیاست کو بھی ختم کریں جس نے جو کیا وہ اسکا کرم معافی اور درگزر اللہ کو پسند ہے آپ لوگوں کو معاف کرینگے اللہ کا کرم کمائیں گے اس سے بڑی عزت افزائی اور نہیں۔
یہ مشورے فقطہ ن لیگ اور انکے سربراہان کیلئے نہیں بلکہ پاکستان کے ان تمام سیاسی جماعتوں اور سربراہان کیلئے بھی ہیں۔ پاکستان آج ایک تاریخی موڑ پر کھڑا ہے انگریزی میں جسے کہتے ہیں”MAKE OR BREAK MOMANT” تمام سیاسی جماعتوں پر لازم ہے کہ وہ اپنا احساب کریں جسےINTERNAL AUDITبھی کہا جاسکتا ہے ،کیا کھویا کیا پایا کسی بھی ادارے یا جماعت کیلئے کسی فرد کی طرح ضروری ہے کہ وہ خود اعصابی کے عمل سے اپنے آپ کو گزارے تاکہ اپنے اندر کا میل اور گندگی سے چھٹکارا حاصل کرے۔ انفرادی اور گروہی طور پر یہ عمل فلاح کا راستہ بنتا ہے۔ اپنی غلطیوں کا اصلاح قوموں کو عظیم بنانے میں مددگار بناتا ہے افراد کو بہتر بناتا ہے۔ ایسے مقامات ہمیں دوراہوں پر لاکھڑا کرتے ہیں اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم بہتری کا راستہ چنتے ہیں یا تباہی، بربادی اور پستیوں کی راہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ اللہ پاک محرم کے آخری عشرہ میں میدان کربلا میں نواسہ رسول ۖاور اس کے قبیلے کی حق اور سچ کی راہ میں قربانی اور مستقل مزاجی سے تکالیف کو برداشت کرکے اس مشکل میں سے سرخرو ہو کر کامیاب ہونے کو ہماری مشکل راہ بنائے۔ موت تو برحق ہے لیکن کوئی راہ حق میں سر کٹوا کر بھی تاریخ میں سدا حیات ہوتا ہے کوئی مسند اقتدار پر بھی ہمیشہ کیلئے ذلت ورسوائی کماتا ہے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here