الحمد اللہ کہ اس خاکسار کو گزشتہ دنوں سیکرٹری الی نائے جیسی وائٹ نے میری 27 سالہ صحافتی و کمیونٹی خدمات کے اعتراف میں ایک ایسے اعزاز سے نوازا جو عموماً ریاست کی اہم ترین خدمات انجام دینے والی شخصیات، غیر ملکی و ریاستی رہنمائوں اور سفارتکاروں و ڈپلومیٹس کو تفویض ہوتا ہے۔ سیکرٹری جیسی وائٹ نے اپنے توصیفی مراسلے میں ایشیئن ایڈوائزری کونسل اور ریاست کیلئے میرے کردار کو سراہتے ہوئے میرے نام کی خصوصی لائسنس پلیٹ “J RANA” عطاء کی ہے۔ سچ ہے اللہ جسے چاہے عزت دیتا ہے، عزت و ذلت رب کائنات کا اختیار ہے اور بندوں کے اعمال پر جزاء و سزا دنیا و آخرت میں لازم ہے۔ ہم انسان دنیاوی عیش و آرام اور اپنی اغراض و خواہشات کی غلامی میں ان حدوں تک پہنچ جاتے ہیں جو عارضی طور پر بالذات فائدے کا سبب تو ہو سکتی ہے لیکن انسانیت و دین کے حوالے سے خسارہ ہی خسارہ ہے۔ میری یہ عرضداشت محض اظہار تشکر ہے اور دعا کرتا ہوں کہ زندگی میں اپنی حیثیت کے مطابق بنی نوع انسان کی فلاح اور حق بات کا اظہار کرتا رہوں۔ پاکستان سے اپنے آبائی تعلق کے ناطے میری تحریروں کا عمومی ماخذ وطن عزیز ہی رہتا ہے لیکن دُکھ ہوتا ہے کہ میرا وطن انسانیت و دینی اور ملت کے حوالے سے ترقی معکوس کا مظہر ہی نظر آتا ہے۔ فرد سے معاشرے تک کسی بھی شعبے میں کچھ اچھا نظر نہیں آتا۔ اس کی بنیادی وجہ وہ قوتیں، ادارے اور ایکٹرز ہیں جو ملک و قوم کی قیادت، حفاظت اور نیابت کے ذمہ دار ہیں۔
گزشتہ 75 سالوں میں خصوصاً تین عشروں سے وطن عزیز کی ریاستی، حکومتی، انتظامی و کاروباری اور اخلاقی صورتحال جس تنزلی کا شکار ہوئی ہے وہ کوئی راز نہیں۔ ہم حتیٰ المقدور نہ صرف اس کی نشاندہی کرتے رہے ہیں اور بہتری کے حوالے سے اپنی معروضات بھی پیش کرتے رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو اس انحطاط کی ذمہ داری ملک کی سیاسی اشرافیہ پر سب سے زیادہ ہے جو اپنے اقتدار و مفادات کے حصول و تسلسل کیلئے ہر وہ ہتھکنڈہ اپناتی ہے جو اس کے مقاصد کے حق میں ہو۔ اس کھیل میں ملکی سلامتی و تحفظ کے ذمہ داروں کا کردار بھی کچھ اچھا نہیں رہا۔ نتیجہ یہ کہ آج وطن عزیز سیاسی عدم استحکام، معاشی تباہی، انتظامی و معاشی انحطاط کیساتھ ساتھ دہشتگردی و عدم تحفظ کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ اس کے جو اثرات ملک و قوم پر مرتب ہوئے ہیں ان پر ہم مسلسل اپنی معروضات پیش کرتے رہے لیکن مفادات کے غلاموں کے آگے ہماری التجائیں، بھینس کے آگے بین بجانا ہی ثابت ہوا ہے۔ گزشتہ دس ماہ سے ملک جن حالات سے گزرا ہے اس کے بارے میں قارئین بخوبی آگاہ ہیں۔ عمران خان کو اقتدار سے محروم کیے جانے کے بعد ملکی سیاست جس مد و جزر کی شکار ہے اس کے باعث وفاق سے صوبوں اور شہروں تک بحرانی کیفیت کی جو صورتحال بنی ہے اس نے عام آدمی کو اُلجھنوں سے دوچار کر دیا ہے اور سیات و سیاسی اشرافیہ سے اعتماد اُٹھا دیا ہے۔
عمران خان کیخلاف عدم اعتماد سے گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی کی تحلیل اور اب خیبرپختونخواہ کی اسمبلی کی تحلیل کیساتھ ہی کپتان کے قومی اسمبلی میں واپس جانے کے اعلان تک جو کھیل کھیلے جاتے رہے ہیں اور بقول عمران خان باجوہ ڈاکٹرین کے تحت، 14-13 جماعتوں کے جٹھ نے جس طرح عوامی اُمنگوں کے برعکس تماشے کئے ہیں ان سے بقول فیض شرح بے دردیٔ حالات نہ ہونے پائی، اب کے بھی دل کی مدارات نہ ہونے پائی، گویا نہ ہی جمہوریت پنپ پائی اور نہ عوام کے حالات بہتر ہو سکے۔ غالب کی زبان میں ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے کے مصداق ایک تماشہ کراچی و حیدر آباد میں لوکل باڈیز الیکشن کی شکل میں ہوا جس میں سیاسی تاریخ میں پہلی بار پیپلزپارٹی کراچی میں سب سے زیادہ نشستیں لینے والی جماعت بن گئی۔خیال یہ تھا کہ متحدہ کے بائیکاٹ کے نتیجے میں جماعت اسلامی یا پی ٹی آئی کراچی میں سبقت حاصل کریں گی لیکن لگتا ہے کہ باجوہ ڈاکٹرین کے تسلسل کے سبب ایں خیال است و محال است و جنوں ہی رہا۔ متحدہ میں پی ایس پی اور فاروق ستار کا ادغام، پھر حلقہ بندیوں کو بنیاد بنا کر بائیکاٹ لیکن وفاق میں اتحاد بر قرار رکھنے اور اقتدار کے مزے لوٹنے کا اعلان بھی اسی ڈاکٹرائن کا حصہ نظر آتا ہے۔ ایک جانب یہ کھیل چل رہا ہے تو دوسری طرف کپتان اپنے پتے کھیل کر امپورٹڈ حکمرانوں کو دہلانے پر تُلا ہوا ہے۔ پنجاب و کے پی کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد کپتان نے امپورٹڈ وزیراعظم کے اعتماد کے ووٹ کا پتہ کھیلنے کیساتھ قومی اسمبلی میں جانے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ استعفوں کی منظوری کے مدعے پر اسٹینڈ لینے والے کپتان کا یہ اقدام مسلط حکمرانوں کیلئے شدید جھٹکا ہے کہ پی ٹی آئی کے اسمبلی میں آنے کے بعد نام نہاد قائد حزب اختلاف راجہ ریاض ان کے مفاداتی کھیل کا حصہ نہ رہ سکے گا اور حکمران ٹولہ اپنی من مانی نہ کر سکے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست ایک ایسا تماشہ بن گئی ہے جہاں ہر روز ایک نئی جہت سامنے آرہی ہے۔ متذکرہ معاملات کے ساتھ کپتان کی چوہدری پرویز الٰہی کو بلّے کے نشان پر اگلا انتخاب لڑنے کی پیشکش اور پرویز الٰہی کے اتفا ق پر چوہدری شجاعت کی جانب سے باپ، بیٹے اور کامل علی آغا کی رکنیت معطل کرنے اور اظہار وجہ کا نوٹس ق لیگ میں تقسیم کی پیش گوئی نظر آتا ہے۔ ہمارے خیال کے مطابق تو دن بہ دن سُکڑتی ہوئی ق لیگ دم توڑتی ہوئی لگتی ہے اور پرویز الٰہی و چوہدری شجاعت کی بڑھتی ہوئی خلیج کے باعث پرویز الٰہی، مونس و آغا اپنی سیاسی بقاء کیلئے بلّا ہاتھ میں پکڑ لیں گے۔ اُدھر موروثیت کی داعی جماعتوں میں عمران کے شاطرانہ سیاسی دبائو سے نا امیدی اور وحشت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ نئی پلاننگ، صف بندی کرنے میں مریم اور اس کے بیٹے کو ن لیگ کی کمان دینے پر غور ہو رہا ہے۔ سیاست کے میدان میں پل پل بدلتے ہوئے منصوبوں، بیانیوں اور اقدامات کو دیکھتے ہوئے ایک ہی خیال سامنے آتا ہے کہ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے، لیکن کیا اس طرح پاکستان کی سیاست، معاشرت، معیشت و ریاست میں کوئی بہتری آسکتی ہے۔ مسئلہ کا حل شفاف و عوام کی اُمنگوں پر مبنی انتخابات میں ہی ہے۔
٭٭٭