قارئین کرام کو پاکستان نیوز اور ہماری جانب سے عید الاضحی کی دلی مبارکباد اور دعا کہ اللہ رب العزت اس متبرک و با سعادت دن کی تمام رحمتوں سے آپ کو فیضیاب فرمائے اور سنت ابراہیمی پر عمل کو قبول و مبرور فرمائے نیز جن خوش نصیبوں کو حج کی سعادت حاصل ہوئی ان کی عبادتوں و ریاضتوں کو مقبول فرمائے۔ آمین۔ سنت ابراہیمی کا اہم فریضہ (قربانی کی ادائیگی) موجودہ مہنگائی کے دور میں عام افراد کیلئے یوں تو امریکہ سمیت ہر ملک میں مشکل ہو چکا ہے لیکن پاکستان میں تو جوئے شیر لانے کے مترادف ہے جہاں ”باس” نام کے بیل کے دام 70 لاکھ رہے اور بیچنے والا ایک روپیہ کم کرنے پر بھی راضی نظر نہ آیا، کچھ یہی حال چھوٹے جانوروں کا بھی رہا کہ جو بکرے اور مینڈھے ہزاروں کی قیمت میں ہوتے تھے ،لاکھوں کے ہو چکے تھے ایسے میں ایک عام آدمی جس کی تنخواہ ہی 50 ہزار ہو مویشی منڈی جا تو سکتا تھا، اپنی پسند کے جانور کا انتخاب اس کیلئے ناممکن ہی تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ وطن عزیز کی سیاسی منڈی کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں کہ مختلف ”باسز” خصوصاً سیاست کے بیلوں اور دیگر کموڈیٹینر کی باگ ڈور ان کے مالکان و فروخت کنندگان کے ہاتھوں میں ہے اور وہ عوام کی پسند کے برعکس وہ مال فروخت کرنے پر مصر ہیں جو ان کے منافع و فائدے میں ہو۔ سونے پر سہاگہ کہ اس حوالے سے ان مالکان و فروخت کنندگان کے درمیان محاذ آرائی کی وہ کیفیت سامنے آچکی ہے جس میں ایک نہیں متعدد قربانیوں کا مرحلہ بھی آسکتا ہے۔
سیدھے سادھے الفاظ میں اگر بات کی جائے تو پاکستان کے سیاسی منظر نامہ میں مالکان و فروخت کنندگان یعنی آئینی، قانونی و انتظامی اداروں میں چپقلش، تنازعہ اور اپنی برتری منوانے کی جنگ چھڑی ہوئی ہے تو دوسری جانب سیاسی بیلوں یعنی اقتدار کے بھوکوں میں اپنی اہمیت اور قدر و قیمت کے تعین پر مقابلہ جاری ہے۔ گزشتہ دنوں کے حالات و واقعات پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت بہت واضح ہو جاتی ہے پارلیمنٹ میں انتخابی ترامیم کے قانون کی متفقہ منظوری، 62(1) ایف کے تحت نا اہلی کی مدت 5 سال کرنا، الیکشن کی تاریخ کا اختیار الیکشن کمیشن کو تفویض کرنا دراصل پرسن اسپیسفک اقدام ہے کہ اس طرح ایک جانب نوازشریف اور جہانگیر ترین انتخابات کیلئے اہل قرار پائیں تو انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے صدر مملکت کا اختیار صفر ہو جائے۔ اس قانون کے حوالے سے وقت بھی وہ چُنا گیا جب صدر حج کی سعادت پر ہیں اور چیئرمین سینیٹ قائم مقام صدر ہیں گویا ایکٹ کی منظوری میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوئی اور منظور بھی ہو گیا وہ الگ بات ہے کہ کسی بھی ریفرنس یا پٹیشن کی بنیاد پر گزشتہ کی طرح اس قانون کو بھی عدالت عظمیٰ اُڑا کر رکھ دے۔
سپریم کورٹ کا ذکر آیا ہے تو اس کیس کا بھی ذکر کرتے چلیں جو اعتزاز احسن، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ و دیگر کی پٹیشنوں پر ملٹری کورٹس اورسویلین کے ٹرائلز کے حوالے سے زیر سماعت ہے۔ نو رکنی لارجر بینچ سے 6 رکنی ہونے تک تو آپ با خبر ہی ہیں، سوموار کو ایک جانب چیف جسٹس کی جانب سے چھڑی کے استعمال کے حوالے سے ریمارکس تو فوری بعد آئی ایس پی آر کے ترجمان کی میڈیا کانفرنس نے اس امر کی توثیق کر دی ہے کہ متذکرہ ایشو پر بالخصوص 9 مئی کے حوالے سے کسی مفاہمت یا اتفاق کا کوئی امکان نہیں۔ لیفٹیننٹ جنرلز، میجر جنرلز، بریگیڈیئرز سمیت 17 افسران کیخلاف تادیبی کارروائی اور برطرفی سول عدالت سے 102 شرپسندوں کیخلاف ٹرائل کا حوالہ دیتے ہوئے یہ واضح کر دیا کہ 9 مئی کے حوالے سے کسی بھی مفاہمت، رعایت یا کسی بھی دلیل کو خاطر میں نہیں لایا جائیگا اور دہشتگردوں، سہولتکاروں، منصوبہ سازوں کو انجام تک پہنچایا جائیگا۔ آئی ایس پی آر کا یہ اعلامیہ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ آرمی ایکٹ و عدالتوں کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ اپنے کردار کا تعین کر چکی ہے تو دوسری طرف یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ سیاست کا منظر نامہ کس طرح ترتیب دیا جا رہا ہے۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کو کسی بھی صورت میں سیاسی منظر نامے اور انتخابی عمل کا بے پناہ عوامی حمایت کے باوجود حصہ نہیں بننے دیا جائیگا۔ انتخابی عمل کی جو بساط بچھائی جا رہی ہے، اس میں وہی آزمودہ اور عوام کی مسترد کردہ جماعتیں اورکنگز پارٹیاں حصہ لیں گی۔
وطن عزیز اور ہماری قوم کی بد نصیبی یہ ہے کہ ہماری سیاست، حکومت، معیشت اور عوام کے قسمت کے فیصلے بیرون ملک اور بیرونی قوتوں و حکمرانوں کے توسط سے ہوتے ہیں۔ ملکی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ اب جب الیکشن کا شور و غوغا شروع ہوا ہے تو ایک طرف نوازشریف، مریم نواز و دیگر لیگی دبئی میں اکٹھے ہوئے ہیں تو دوسری طرف آصف علی زرداری، بلاول، آصفہ وارد دبئی ہوئے ہیں۔ دکھ کی بات ہے کہ عوام کے ٹیکسوں، لوٹ مار پر پلنے والے اور عوامی نمائندگی کے دعویدار یہ سیاسی رہنما چارٹرڈ طیاروں پر سفر کرتے ہیں، عوام کے ساتھ سفر کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ زرداری نے کراچی سے اور بلاول نے اسلام آباد سے چارٹرڈ طیاروں سے سفر کیا۔ واہ قوم کیلئے تڑپنے والے لیڈرو تمہارا جواب نہیں۔ دبئی میں ملاقات میں پاکستان اور عوام کی بہتری و خدمت کیلئے نہیں بلکہ اس امر پر گفتگو و اتفاق کئے گئے کہ تو جیتا تو صدر میرا ہوگا اور کس کو کتنی وزارتوں کا حصہ ملے گا گویا باپ ابھی مرا نہیں، اولادوں میں جائیداد کے حصے بخرے ہونے لگے۔ ان رہنمائوں سے ملک و عوام کی بہتری کی کیا امید کی جا سکتی ہے۔ اس وقت جب ہم یہ سطور تحریر کر رہے ہیں ہمیں اب بھی عام انتخابات نہ وقت پر ہوتے نظر آرہے ہیں اور اگر ہو بھی جائیں تو شفافیت و غیر جانبداری پر بھی شکوک و شبہات نظر آتے ہیں۔ موجودہ حالات میں عدلیہ و پارلیمان اور سب سے بڑھ کر اسٹیبلشمنٹ و عدلیہ کے درمیان وسیع خلیج ہوتی نظر آرہی ہے اور اس کا انجام (خدانخواستہ) جمہور و جمہوریت کی بہتری نہیں بربادی ہی نظر آتا ہے۔ ہمیں خبر ہے کہ ہماری تحریریں موجودہ ناخدائوں کیلئے قابل قبول نہیں لیکن ہمارا مشن صرف یہی ہے کہ وطن و عوام کی بہتری کیلئے مقتدرین کو آئینہ دکھاتے رہیں، بقول فیض احمد فیض!
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقۂ زنجیر میں زباں میں نے
٭٭٭