بلاشبہ سیلابوں، زلزلوں، طوفانوں اور وبائوں کا تعلق قانون قدرت سے ہے جس کے لئے انسان کو حکمت عملی کی نعمت بخشی گئی ہے جو انسانوں کی اور بداعمالیوں بدکرادریوں کے باعث برپا ہوتی ہیں جس میں انسانوں کو نہایت بڑی آزمائشوں سے گزارنا پڑتا ہے تاکہ انسان اپنی قدرت سے آگاہ ہوسکے۔اگر مصر میں قحط آتا ہے تو حضرت یوسف علیہ السلام کی حکمت عملی کام آتی ہے جس کی روک تھام کے لیے انہیں مصر عزیز نامزد کیا جاتا ہے۔اگر کوڑہ کی وبا پھیلتی ہے تو حضرت عیسٰی علیہ اسلام حجرہ دیکھایا جاتا ہے۔اگر مہلک وباء کا حملہ ہوتا ہے تو حضور پاکۖ کی حکمت عملی سے انسانوں کو بچایا جاتا ہے۔اگر طوفان لوح آتا ہے تو حضرت نوح کی کشتی بنائی جاتی ہے۔ہر مقام پر حکمت عملی ا ختیار کی گئی جس میں اللہ پاک نے انسانوں کی مدد کی ہے۔جس کا پاکستان میں مکمل فقدان ہے جس کی وجہ سے بارشوں، سیلابوں، زلزلوں اور برفانی طوفان میں لاتعداد لوگ مارے جاتے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ موسم برسات میں بارشیں ہونگی۔موسم گرما میں شدید گرمی پڑیگی۔موسم سرما میں سخت سردی پڑیگی۔موسم سردی میں برفباری ہوگی۔جس کے لیے وسیع تر پیمانوں پر حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔تاکہ لوگوں کو نقصانات سے آگاہ کیا جائے۔مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک رینگتی ہے جنہوں نے معصوم عوام کو برف کے نام پر اکسایا بھڑکایا اور مروایا ہے۔جن کی بجانے کے لئے کوئی حکمت عملی کا راستہ اختیار نہ کیا گیا ہے۔جس کی وجہ سے دو درجن بھر لوگ مری کی سیاحت میں اپنی جانوں سے محروم ہوگئے۔برعکس امریکہ جیسے ملک میں آئے دن بڑے بڑے طوفان آتے رہتے ہیں۔جس میں سمندری، برفانی، ہوائی طوفان، زلزلے، ٹارناڈو وغیرہ شامل ہیں۔جن سے عوام کو حکمت عملی سے بچایا جاتا ہے جس کے لیے تمام وسائل استعمال کئے جاتے ہیں۔جبکہ مری میں فوجی اڈا ہے جس کے پاس لاتعداد ہیلی کاپٹر ہونگے۔جو برفانی طوفان میں پھنسے ہوئے لوگوں کو نہ بچا پائے جس پر تحقیقاتی کرنا چاہئے مزید برآں مقامی ہوٹلوں اور مکانوں کے مالکان نے نہایت بے حسی اور غیر انسانی رویہ اختیار کرتے ہوئے طوفان میں پھنسے ہوئے لوگوں کو پناہ تک نہ دی یا پھر پناہ مانگنے پر منہ مانگی رقمیں مانگی ہیں۔جس پر بھی فوری ایکشن لینا ہوگا جن کی بے حسی اور لالچ کی وجہ سے قیمتی جانوں کا ضیاع ہوچکا ہے۔تاہم بچپن میں موسم گرما کی اسکول چھٹیوں میں بعض لوگ والدین بچوں سمیت مری جایا کرتے تھے جو برف کے مناظروں کی کہانیاں آکر سنایا کرتے تھے۔جس پر تالابوں میں نہانے والے نہایت لالچی نظروں سے دیکھا کرتے تھے کہ موسم گرما کی شدید گرمی میں برف کا ذکر ایسا لگتا تھا جیسا کہ جنت سے آنے والوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ شاید سب خواب ہے جو آج تباہی کا باعث بنا ہوا ہے۔بہرکیف حکمرانوں نے گزشتہ چند سالوں سے سیاحت کی رٹ لگا رکھی ہے۔یہ جانتے ہوئے کہ سیاحت کو کن لوگوں نے ختم کیا ہے۔وہ لوگ جنہوں نے امریکی برائی جنگ جہاد یا فساد لڑا رہے ہیں۔جس سے پاکستان میں وسیع پیمانے پر دہشتگردی پھیل گئی جس کے ہاتھوں اسی ہزار لوگ شہید ہوچکے ہیں وہ پہلے دہشت گردی ختم کریں۔دہشت گردوں کے ساتھ جنگ بندی کے مذاکرات بند کریں۔جنہوں نے سوات جیسے سیاحت کے مقام کو تباہ وبرباد کردیا ہے جو کبھی بین الاقوامی سیاحوں کا پسندیدہ کام تھا یا پھر گلگت بلتستان کو بھی آج تک دنیا بھر کے سیاحوں کو مدعو نہیں کرپاتے۔کیونکہ ملک میں دہشت گردی کا راج ہے۔بچا ہے صرف ایک مری جس پر اہل اقتدار کے عالیشان قیمتی مکانات ہیں۔جس کو سیاحت کی بجائے امراء کی عیش وعشرت کا پناہ گاہ بنا دیا ہے۔وہاں جب گاڑیوں والے جاتے ہیں۔ تو ان کے ساتھ ہی سلوک ہوگا جو مری میں آج ہوا ہے۔جن کے ملازموں نے راستے بند کردیئے۔بدقسمت طوفان میں پھنسے ہوئے لوگ کو پناہ نہ دی گئی۔یا پھر پچاس ہزار تک جان بجانے کا معاوضہ مانگا گیا۔یہاں کوئی حفاظتی انتظامات نہ تھے۔لوگوں کو سیاحت کے نام پر اکسایا گیا۔ہزاروں گاڑیوں کی بجائے لاکھوں گاڑیوں کو جانے دیا گیا جو جن کے لیے جانے کا راستہ تو تھا مگر واپس آنے کا کوئی راستہ نہ بنایا گیا۔بحرحال سانحہ مری ناقابل فرامواش گزارا ہے جو کسی تان الیون سے کم نہیں ہے۔جس میں حکومتی دھوکہ دہی بے حسی اور لاپرواہی سے دو درجن لوگ مارے گئے جس میں بچے اور خواتین تک شامل ہیں۔جو حکمرانوں کا ایک قومی جرم ہے۔جن کے خلاف تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو سزائیں دی جائیں جنہوں نے حکمت عملی کے بغیر لوگوں کو مری میں برفباری سے لطف اندوز ہونے سے اکسایا۔پھنسایا اور مروایا ہے جو ناقابل برداشت عمل ہے جس کو کسی بھی حالت میں معاف نہیں کیا جاسکتا ہے۔
٭٭٭