فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
11

فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

محترم قارئین! عرس امام اعظم ومحدّث اعظم رضی اللہ عنھا وسالانہ جلسہ دستار فضلیت کی تیاریاں جو بن پر ہیں۔ اس عرس پاک کا آغاز حضور محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ نے اپنی ظاہری زندگی مبارکہ میں تقریباً1950ء کے لگ بھگ فرمایا تھا۔ اور یہ عرس امام اعظم وجلسہ دستار فضلیت کے نام سے تھا۔ پوری دنیا میں امام اعظم ابوحنیفہ رضی عنہ کا عرس پاک فقید المثال طریقہ سے منانے کا اعزاز صرف اور صرف حضرت محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ کا حصہ بنا۔ پھر آپ کا وصال باکمال بھی رجب المرجب کے مہینہ میں ہوا۔ جانشین محدّث اعظم، شمس المشائخ، نائب محدّث اعظم صاحبزادہ پیر قاضی محمد فضل رسول حیدر رضوی رضی اللہ عنہ نے1962ء سے اس عرس پاک کا نام عرس امام اعظم ومحدّث اعظم رضی اللہ عنھما وسالانہ جلسہ دستار فضلیت رکھ دیا۔ دسمبر2020ء تک آپ رضی اللہ عنہ نے اس تقریب سعید کی سرپرستی فرمائی۔ بعدازاں قائد ملت اسلامیہ، فخرالمشائخ، جانشین شمس المشائخ صاحبزادہ پیر قاضی محمد فیض رسول حیدر رضوی زید شرفہ نے شاندار طریقہ سے اس عرس پاک کی تقاریب کو سجایا۔ اور سجادگی کا حق ادا کردیا یہ سلسلہ جاری ہے۔ اللہ کرتا دیر اہل سنت وجماعت کو یہ قیادت و رہنمائی صحت وعافیت سے ملتی رہے اس سال یہ عرس پاک٢٩،٣رجب المرجب بمطابق30،31جنوری بروز جمعرات وجمعہ ہوگا۔ حضور محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ کے فیضان کا یہ مرکز اہل سنت وجماعت کی رہنمائی ہر فیلڈ میں کر رہا ہے۔ یہ عرس پاک ہر سال29، 30رجب المرجب کو مرکز اہل سنت وجماعت میں منعقد ہوتا ہے۔ جبکہ عیسوی تاریخ اس کے حساب سے بدلتی رہتی ہے۔ اس عرس پاک میں فارغ التحصیل علمائ، مفتیان کرام اور حفاظ کرام کی دستار بندی ہوتی ہے۔ علماء کرام، مشائخ عظام اور غیور عوام اہل سنت کی بھرپور شرکت ہوتی ہے۔ اصلاح اعمال وعقائد کے اعتبار سے یہ تقریب سعید اپنے اندر ایک انفرادیت رکھتی ہے۔ اسی طرح اس عرس پاک کی تقاریب سعیدہ مرکز اہل سنت، مرکزی سنی رضوی جامع مسجد جرسی سٹی میں بھی انعقاد پذیر ہوتی ہیں۔ جن میں عوام اہل سنت کی عقائد اور اعمال کے اعتبار سے تربیت واصلاح ہوتی ہے۔ اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنھما کی خدمات دینیہ کو خراج عقیدت بھی پیش کیا جاتا ہے۔ حضرت محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ نے مسلک اہل سنت و جماعت اور فکر رضا رضی اللہ عنہ کی جس انداز سے ترویح واشاعت کی ہے آپ رضی اللہ عنہ کی ان خدمات کو جتنا بھی خراج عقیدت وتحسین پیش کیا جائے۔ بہت کم ہے آپ نے اپنی زندگی مبارکہ کا ایک ایک لمحہ پورے اخلاص کے ساتھ خدمت دین متین وقویم کے لئے وقف کردیا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ بے مثل محدّث، کہنہ مشق مدرس بہترین مصنف، بافیض شیخ طریقت اور سحربیان خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ بالغ نظر مفتی بھی تھے۔ والدین نے تو آپ کا نام سردار احد رکھا تھا لیکن علماء حقا نے آپ کی خدمات دینیہ کے اعتراف میں آپ کو محدّث اعظم پاکستان، نائب اعلیٰ حضرت کے لقب سے ملقب کیا ایک ہی شخصیت میں اپنے زیادہ اوصاف کا پایا جانا اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل وکرم کے بغیر ممکن نہیں اور پھر عشق مصطفیٰۖ رکھنے میں بھی آپ رضی اللہ عنہ اپنے وقت کے بے مثال عاشق رسول تھے۔ حضرت محدّّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ نے ساری عمر محض دین کی خدمت اور ترویح واشاعت کی خاطر بغیر کسی معاوضہ کے فتاویٰ تحریر فرمائے بغیر کسی معاوضہ کے تدریس کی اور دین کی خدمت فرمائی۔ اسی للّّمّہیت کی برکت سے آپ کے فتاویٰ علماء وعوام اہل سنت میں مقبول ہوئے۔ یہ تعین تو مشکل ہے کہ آپ نے پہلا فتویٰ کب جاری فرمایا لیکن یہ بہرحال طے ہے کہ منظر اسلام بریلی شریف کی تدریس کے ابتدائی ایام میں آپ نے فتویٰ نویسی کا آغاز فرما دیا تھا۔ اور مشکل ترین سوالات کے جوابات ایسے آسان اور مدلل پیرائے میں دیئے اور علماء حقا دیکھ کر فخر کرنے لگے اور آپ کی قابلیتوں کو خراج تحسین پیش کئے بغیر نہ رہ سکے۔ مفتی اعظم ہند اور صدرالشرلیہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رضی اللہ عنھما نے بھی آپ کی تدریسی وفتاوٰی نویسی کی قابلیتوں کا اعتراف کیا ہے۔ حالانکہ یہ دونوں ہستیاں آپ کے عظیم اساتذہ ہیں۔ عالم اگر اپنے حاصل کرو علم پر عامل نہ ہو تو علم بجائے نعمت کے زحمت بنتا چلا جاتا ہے۔ حضرت محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ نے صرف فتاوٰی دیئے ہی نہیں بلکہ عمل بھی کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے عادات واخلاق قرآن واحادیث کی تعلیمات کے ایسے مطابق تھے کہ بہت سارے بے دینوں کو آپ کے عمل کی برکت سے دین کی دولت نصیب ہوگئی۔ بلکہ یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں کہ آپ کی حیات طیبہ کے تمام اوقات ذکر الٰہی سے مزیّن اور جملہ افعال سنت نبوی کے آئینہ دار تھے۔ عبادت کا ایسا ذوق وشوق تھا کہ بچپن میں ہی چلتے پھرتے ذکر کرتے اور نعت شریف پڑھتے رہتے۔ والد صاحب کی انگلی پکڑ کر مسجد جاتے اور باجماعت نماز ادا کرتے۔ آپ کی نماز روایتی نماز نہ ہوتی بلکہ بارگاہ خداوندی میں حاضری کا تصور ذہن پر غالب رہتا۔ اجمیر شریف کے زمانہ طالب علمی میں آپ کی نمازوں کی کیفیت بیان کرتے ہوئے حافظ ملت مولانا عبدالعزیز مبارک پوری علیہ الرحمة لکھتے ہیں:سلسلہ کے وظائف اور نماز باجماعت کے پابند تھے۔خشیّت ربانی کا یہ عالم تھا کہ نماز میں امام سے جب آیات تربیت سنتے تو آپ پر لرزہ طارق ہوجاتا حتیٰ کہ پاس والے نمازی کو محسوس ہوتا تھا کہ یہ طالب علم کی مقدس کیفیات ہیں۔ مختصر یہ کہ آپ نے علم لوگوں پر رعب ڈالنے کے لئے نہیں بلکہ عمل کرنے کے لئے پڑھا تھا اور خوف خدا کی وجہ سے پڑھا تھا نہ کہ دنیا جمع کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ آپ کے درکے بلند فرمائے اور آپ رضی اللہ عنہ کے فیوض وبرکات سے وافر حصہ عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here