وباء سے پہلے اور وباء کے بعد کا امریکہ

0
86
کامل احمر

ابھیCOVID-19مکمل طور پر ختم نہیں ہوا ہے کہ دوسرے قسم کے وائرس کی لہر یورپ اور امریکہ کے اردگرد منڈلارہی ہے کہ ہر جگہ بحران ہے۔مہنگائی کا لیبر کی کمیابی کا اور جرائم کا ہم امریکہ کا جائزہ لیں تو اسلحہ کی آسان فراہمی کی وجہ سے لوگ اپنا دفاع کھو چکے ہیں کہ ہر چیز بدلی بدلی نظر آتی ہے لوگوں کی ڈرائیونگ سے لے کر کھانے پینے کی عادتوں تک ایسا لگتا ہے کہ لوگ قید میں تھے اور رہائی کے بعد جشن منا رہے ہیں۔دن رات کھا رہے ہیں، ڈرگ لے رہے ہیں اور ہنگامے کر رہے ہیں راتوں کو آتش بازی اور کاریں دوڑا رہے ہیں۔پھٹے پائپ کے ساتھ1930میں امریکہ میں بحران آیا تھا جیسے ہم زبردست افسردگی کا نام دینگے۔کہ ہر چیز کا فقدان تھا معیشت کی تباہی تھی جو گیارہ سال تک رہی صرف امریکہ میں ہی نہیں دوسرے ملکوں میں بھی یہ بحران آیا تھا بے روزگاری انتہا پر پہنچ گئی تھی۔اسٹاک مارکیٹ گر گئی تھی، غربت اور افلاسی کا عالم تھا۔تب فیڈرل گورنمنٹ نے امریکہ میں ملازمتوں کی فراہمی کے سڑکیں، سرنگین، شاہراہیں اور بڑے بڑے پلوں کے بنانے کا پروگرام کیا تھاجو آج ہم دیکھتے ہیں اور اس طرح حالات بدلے تھے۔یہ بحران تین سال تک رہا تھا کہ امریکہ کی سیاست بدل گئی تھی صدر ہر برٹ ہوود کو اس بحران کا مورد الزام ٹہرایا گیا تھا۔اور نتیجہ میں1932میں وہ الیکشن ہار گئے تھے اور ان کی جگہ فرینکلن ڈیلانو روز ویلٹ بڑی اکثریت سے انتخاب جیت کر صدر بنے تھے انہوں نے آتے ہی بڑے بڑے فیصلے کئے اور امریکہ کی معیشت نہ صرف آگے بڑھی اس کے نتیجے میں1970تک امریکہ دنیا کا ہر لحاظ سے طاقتور ملک بن گیا اس دوران دوسری جنگ عظیم ہوئی۔جاپان کی تباہی ہوئی اور ہٹلر دنیا ہر راج کرنے کا خواب دیکھے بغیر ابدی نیند سو گیا۔لیکن وہ زمانہ کچھ اور تھا معاشرے میں اس قدر افراتفری(قتل بے ایمانی قانونی طور پر صارفین کی لوٹ، طرح طرح بے ضرورت دوائیاں اور انکا ردعمل، بیماریاں، فضا کی آلودگی)یہ وہ وقت تھا کہ دنیا بھر سے لوگوں کی ہجرت امریکہ کی طرف ہو رہی تھی اور یہ ملک”مواقعوں کی سرزمین” ”LAND OF OPPORTUNITY”بن گیا تھا۔بھانت بھانت کے لوگ جہاز بھر بھر کر آتے اور آتے ہی اپنی زندگی کو ازسر نو بنانا شروع کردیتے تھے۔اسی اسی گھنٹے کام کرتے تھے۔بغیر اورٹائم کے اس وقت یونین نام کی کوئی چیز نہ تھی ساتھ ہی ساتھ ادب کی تخلیق ہو رہی تھی اور بڑے ناول لکھے گئے جن میں جان اسٹین بک کیOF MICE ANDMENاورGRAPES OF WRATHپر بھی فلم بنی کہ کس طرح ایک لڑکی غربت سے نکلنے کے لئے آمیر آدمی سے شادی کرتی ہے۔جو آج کے دور کی کہانی بھی ہے پاکستان میں یہ عام ہورہا ہے۔اور اس کی وبا امریکہ میں بھی تیسری دنیا کے باشندوں میں بدرجہ اتم ہے۔
بات ہو رہی تھی معاشی اور معاشرتی بحران کی ان دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔اور ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں کہتے ہیں جب غربت آتی ہے اور شرافت چلی جاتی ہے ۔معاشرے میں برائیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔کچھ لوگ عادتن اور کچھ لوگ فطری طور پر بری باتوں کو اپنا لیتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں کچھ باتیں ہمارے امراء اور سیاسی لوگوں نے پیدا کردی ہیںکہ حرام کا مال جائز کرلیا ہے اور غریب غریب تر ہورہا ہے۔
امریکہ میں کسی کے غریب ہونے کا کوئی جواز نہیں اگر وہ ایمانداری سے محنت کرسکتا ہے۔ورنہ1930کا معاشی بحران کبھی ختم نہ ہوتا اور حالیہCOVID-19نے جو لوگوں کی سوچ اور رویوں کا بدلا ہے اس کو نفسیاتی اثر کہہ کر درگزر نہیں کیا جاسکتا اسی کے ساتھDEPRESSIOIمایوسی کا بھی کوئی جواز نہیں یہ انسان کی سوچ ہے جب انسان تنہا رہ جاتا ہے یا خود سے تنہائی اختیار کرلیتا ہے۔بول چال نہیں رکھتا۔لیکن یہ چیز پھیلانے میں جدید سائنس بھی ہاتھ بٹا رہی ہے جن میں دوا ساز کمپنیاں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔اور فوڈ فراہم کرنے والی کمپنیاں برابر کی شریک ہیں جن میں فاسٹ فوڈ کے عام ہونے کا دخل ہے پہلے صرف یہ کام میکڈانلڈ اور برگر کنگن کے علاوہ کنٹکی فرائڈ چکن کرنے تھے اب یہ کام گلی گلی ہورہا ہے۔اور پسماندہ ملکوں تک پھیل گیا ہے۔عام بات ہے بچے کو میٹھا کھلائیں بچہ زیادہ شرارتیں کریگا۔COKEایک مضر ڈرنک ہے مگر عام ہے پھر بیکری کی اشیاء کے ساتھ ساتھ قسم قسم کے تیلوں میں تلی اشیاء ہمارے لوگوں میںZINGER BURGERکافی مقبول ہے جو مضر صحت ہے۔کافی عام ہے جو شکر کے ساتھ کیفین کی مقدار خون میں بڑھاتی ہے۔یہ ساری باتیں دوسرے معنوں میں وبائیں پھیل رہی ہیں لیکن حکومت کی طرف سے کوئی پابندی نہیں۔علاج کے معاملے میں جو غیر ضروری باتیں ہیں وہ بھی قابل افسوس ہیں۔آج کے ڈاکٹر کو ہسپتال کے کرتا دھرتا کہتے ہیں مال بنائو یعنیREVENVEبڑھائو۔ہمارے کارڈیالوجسٹ نے جو سرجن بھی ہے بتایا تو ہمارا مشاہدہ ہوا کے دل کے مریض کو جس کی ایک آرٹلری20فیصدی بھی بلاک ہے۔اور وہ دوا کے استعمال یا غذا سے کھل سکتی ہے۔LIPITORعرصے سے استعمال میں تھی۔جو اس کام کے لئے تھی لیکن ہسپتال والوں نے ڈاکٹروں کو تجویز کیا کہ اسٹنٹ ڈال دو جس کا بل دس ہزار ڈالر ہوتا ہے۔ڈاکٹر بھی خوش اور ہسپتال منافع ہیں۔
اگر ہم امریکہ میںCOVID-19کے علاوہ دوسری وبائوں کا ذکر کریں اور ان سب کو آپس میں جوڑ دیں تو1930سے کہیں زیادہ بڑاDEPRESSIONکا دور شروع ہوچکا ہے۔1980کے بعد اور اس کا شکار صرف اور صرف آج کا انسان ہے جو اپنے ہوش گنوا بیٹھا ہے۔لوگ گھر میں بند، انٹرنیٹ اور آئی فون پر خرافات اور اخلاق کو تباہ کرنے والی چیزیں فیس بک کر ایک دوسرے کو گولیاں اور شعراء حضرات کا بڑھاپے میں اپنی کسی محبوبہ(جو اب دادی یا نانی ہوگی)کے غم میں سردھننا بس یہ ہی شغل رہ جاتا ہے۔ایک کہاوت ہے”ایک دوسرے سے ملو تو سارے شکوے شکایات دورCOVIDنے تو یہ کام پچھلے دو سال میں دکھایا ہے۔ہم اس سے پہلے سے اپنی ذات میں مگن گم اور مذہبی فرائض پورے کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے امریکہ میں بندوق کے استعمال سے قتل وغارت گری جاری ہے۔اور پاکستان بھی اپنے طور پر حصہ ڈال رہا ہے۔صرف فروری کے مہینے میں15لاکھ جانیں ضائع ہوئی ہیں۔اور2020میں مجموعی طور پر ایک کروڑ دو لاکھ اسی ہزار جانیں ضائع ہوئی ہیں۔صدر بائیڈن کے دور میں جہاں ڈیموکریٹک حکمرانی ہے پولیس کے بجٹ کو کم کیا جارہا ہے اور نتیجہ میں پولیس خود کو اس خرافات سے بچانے کے لئے سرد مہری سے کام لے رہی ہے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here