پاکستان جرنیلوں،ججوں اور سیاسی لیڈروں کی ہٹ دھرمیوں سے مشکل ترین دور سے گزر رہاہے۔ آئین پاکستان وہ مظلوم دستاویز ہے۔ جسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا ہے۔ نہ کوئی جرنیل، نہ کوئی منصف اور نہ ہی کوئی سیاسی رہنما اس پر عمل کرتا ہے۔ سیاسی اشرافیہ ،بیوروکریسی اور ریاست چلانے والے کل پرزے، ناکارہ اور فرسودہ ہوچکے ہیں۔ جن کا علاج انکی گردنیں تن سے جدا کرنے کے علاوہ کوئی نہیں۔جس آئین کا حلف اٹھاتے ہیں اسی سے روگردانی کرتے ہیں۔ موجودہ الیکشن کمیشن اور احتسابی ادارے مجرموں کی پناہ گائیں ہیں۔ ملک میں دہشتگردی نے سر اٹھا لیا ہے۔ لیکن بیوپاری،لوٹے،لٹیرے، ڈاکو سبھی پنجاب کو فتح کرنے کے لئے لاہور میں جمع ہوچکے ہیں۔
دنیا بھر کے ممالک میں امیروں کے ٹیکس سے غریبوں کی کفالت ہوتی ہے ،پاکستان واحد ملک ھے جہاں غریبوں کے پیسہ سے حکمرانوں کی عیاشیاں چلتی ہیں۔پی ٹی آئی کے لوگ حقیقی آزادی کے سلوگن اور الیکشن کی ڈیمانڈ لئے سڑکوں پر نکلتے ہیں۔ یہ لوگ شریعت کے نفاذ کے لئے یا حرمت رسول کے لئے ایسے کیوں نہیں نکل سکتے ؟اگر یہی لوگ اسلامی نظام کی خاطر نکلیں تو کوئی کرپٹ ملک پر مسلط نہیں ہوسکتا۔ہر سیاسی اور مذہبی پارٹی میں چہرے مہرے۔ بدمعاش اور کرپٹ لوگ مسلط ہیں جس نے سیاسی،مذہبی اور اخلاقی ماحول کو تباہ کردیا ہے۔ پاکستانی سیاست کے بھی انداز نرالے ہیں۔ اقتدار کے حصول کے لئے بوٹ پالشی۔کبھی دھمکیاں،کبھی ترلے اورکبھی منتیں ۔اور کبھی یوٹرن ۔ سیاسی طوائف الملوکی میں شہباز شریف ،فضل الرحمن ،آصف زرداری اور عمران خان کی کانپیں ٹانگ رہی ھیں ۔* قارئین محترم!۔ وقت سے پہلے نہ گلاب جامن کھائیں اور نہ ھی رس گلے ۔ اور نہ ھی گلے پپے لٹیں کیونکہ کھوتے والے قیمے کے نان اور کھوتے کی بریانی دیگوں پر چڑھانے کی تیاری ہوچکی ہے۔ اقتدار کی رسہ کشی میں معیشت مزید برباد ھونے جارہی ہے۔ *چوروں کی بارات لندن سے آہستہ آہستہ واپس پہنچ رہی ہے۔ سلمان شہباز کا فرنٹ مین نیویارک روز ویلٹ ہوٹل کوڑیوں میں خریدنے کی کوشش میں مصروف۔ *پرویز الہی نے یوتھیوں کو مایوس کر کے غداری کا سرٹیفکیٹ حاصل کرلیا۔پی ٹی آئی کے لئے جہازوں میں وکٹیں بھر بھر لانے والے جنرل باجوہ غداری کی سند پہلے ہی حاصل کرچکے ہیں۔ ویسے یو ٹرن بعید نہیں۔* اگر یو ٹرن ہوا تو کل کے ڈاکو ایک بار پھر ریاست مدینہ کے والی ہونگے۔میر جعفر اور میر صادق کو(ٹیپو سلطان) کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔ *پرویز الٰہی اور ن لیگ میں اندرون خانہ رابطوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ سیاست بے اصولی کا دوسرا نام ہے۔ *عمران خان کی جانور کو نیوٹرل بننے کی اپیل۔خان آہستہ آہستہ خافظ جی کو نشانہ بنانے کی طرف گامزن ہیں۔ مٹھا مٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو ھمارا قومی وطیرہ ہے۔ *ابن الوقت فراڈی ڈیزل کا سر کڑاہی اور منہ شکر میں(پرائیوٹ جہازوں اور ہیلی کاپڑوں)کے مزے۔ گزشتہ دنوں لانگ مارچ پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا ڈیزل نے پی ٹی آئی کی خواتین کے بارے میں فرمایا یہ وہ تتلیاں ہیں جن کی ایٹریاں گالوں سے بھی زیادہ نرم ہیں ۔یعنی مولانا ڈیزل وہ بدبودار شخصیت ہے جو دین کے نام پر دھبہ ہے۔ * زرداری نے سندھ سے گندم کی خالی بوریوں میں نوٹ بھر کر لاہور میں ڈیرے جما لئے ہیں۔ یہ موصوف سڑکوں پر گھسٹنے والوں کی آنکھ کا تارا ہیں۔
*ریاست مدینہ کے ٹائیگرز اور مومناں امت دل گرفتہ اور نئی نئی گالیوں کی پریکٹس میں مشغول۔
*یوتھیے ،پٹواری اور جیالے تذبذب اور پریشانی میں مبتلا۔ راتوں کی نیندخراب اور پیٹ میں مڑوڑ ۔کہ جیسے انکے تایا ابو وزارت عظمی کی کرسی کے لئے اکھاڑے میں اتریھوں۔بہرحال
*اس سیاسی گھٹن میں ارجنٹائن نے ورلڈ کپ جیت کر اور امریکہ ایک انٹرویو میں
*بی بی بلاول نے گجرات کے قصائی نریندر مودی کے خلاف بیان دے کر دل خوش کردیا۔
پٹواری ھوں ،یا یوتھئیے یاپھر جیالے۔ انکی اکثریت اندھی تقلید اور شخصیت پرستی میں فنا چکی ہے۔ اخلاقی قدروں اور تہذیبی نظریات کی جگہ شخصی شرک نے لے رکھی ہے۔ ان کو نہ حقیقی نظریات کیطرف مائل کیا جاسکتا ھیاور نہ آداب زندگی کیطرف قائل کیا جاسکتا ہے۔ معاشرتی روئیے نفرتوں کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ کل کے پٹواری مشرف بے عمران ہوکر ٹائیگرز بن چکے ہیں ۔ اور اپنے ہی بڑوں کو در فٹے منہ کہہ کا جہادی بن چکے ہیں۔ ذہنی پسماندگی نے ھمیں اخلاقی طور پر ژائل کردیا ہے۔ ہماری تقسیم یوٹرن لیڈروں۔ لنڈن کے بھگوڑوں اور مذہبی منافرت میں برباد ہوچکی ہے۔
عمران خان کی ساری سیاست کا محور جنرل باجوہ ہے۔ اور انکے اتحادی پرویز الٰہی باجوہ کے بارے منفی بات سننا نہیں چاہتے۔عمران خان پرویز الٰہی کو پنجاب کا بڑا ڈاکو کہتا تھے۔ پھر وزارت اعلیٰ دے دی گئی۔ اب پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم ایکبار پھر چوہدری پرویز الہی کو غدار اور ڈاکو کہہ رھے ہیں۔ جو پی ٹی آئی کو سپورٹ کرے وہ محب وطن ۔ جو چھوڑ دے وہ غدار؟۔اگر پی ٹی آئی اپنا احتساب کرے تو پی ٹی آئی میں آنے والیسبھی نئے ہیں۔ جو دوسری پارٹیوں سے آئے ھیں ۔
اسکا مطلب یہ ہوا کہ پی ٹی آئی میں سب کے سب غدار ھیں ۔ دس سال پہلے یہ سبھی پیپلز پارٹی،ن لیگ ،ایم کیو ایم اور مشرف کے ساتھ تہے۔ یہ اسٹیبلشمنٹ لیگ کے ساتھ تھے۔ یعنی (مشرف اور باجوہ )کے ساتھ ۔ ایسے ہی ن لیگ کا حال ہے۔ عمران خان کی اے ٹی ایم مشین جہانگیر ترین ۔عون چوہدری اور علیم خان سے لیگی قیادت کی ملاقاتیں۔ کیا سب دھل گئے ہیں۔ ؟ نہ یوتھئیے نہ جیالے اور نہ ہی پٹواری عقل رکھتے ہیں ۔اگر عقل و شعور ہو تو ان لوگوں کو کبھی اپنا لیڈر نہ مانیں جن کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ یہ قومی مجرم ہیں جنکی وجہ سے ملک اقتصادی بحران میں ہے۔ جس کا واحد حل ایک بار منصفانہ احتساب ہے۔ سیلاب سے متاثر لاکھوں لوگ سڑکوں کے کنارے سردی میں ٹھٹھر رہے ہیں۔ حکمران حالی خزانے کا رونا روتے ھیں لیکن سیاسی کھوتے خریدنے کے لئے فنڈز کی بوریاں لائی جارہی ہیں۔
میرا ن لیگ کے کارکنوں ۔پی ٹی آئی کی ٹائیگروں ۔پییپلز پارٹی کے جیالوں ۔ایم کیو ایم قاتل دہشتگردوں ۔فضل الرحمن کے دیندار ڈنڈا بردار کارکنان اور انکے کے منافق لیڈران سے سوال ہے کہ سیلاب زدگان کی امداد کے لئے آپکے لوگ کیوں نہیں پہنچے۔ پی ٹی آئی نے اربوں روپے جمع کئے ۔ وہ کہاں خرچ ہوئے ھیں؟۔ سوائے جماعت اسلامی اور خدمت خلق کے کسی سیاسی جماعت کو سیلاب متاثرین کی امداد کی توفیق نہیں ہوئی۔یہ سبھی لٹیرے ہیں۔
سیلاب ہو یا طوفان، زلزلہ ہو یا پناہ گزینوں کی خیمہ بستاں اور امداد ۔ یہ کام صرف جماعت اسلامی ہی کرتی ہے۔ کردار و افکار میں، دیانت و ایمانت میں سچے اور کھرے ہیں تو پھر انکو ووٹ نہ دینے والے اپنے بچوں کے خود دشمن ھیں جو چوروں، لٹیروں اور ڈاکوں کو منتحب کرتے ہیں۔ پارٹیاں بدلنے والے اور نوٹوں کی بنیاد پر الیکشن جیتنے والوں کو اپنے اوپر مسلط کرتے ہیں۔ یہ لوگ جوتے کھانے کے قابل ہی ھے کہ جس کے فئیوچر لیڈر مریم اور بلاول آٹھ آٹھ لاکھ کے جوتے پہن کر بھوک مٹانے کی بات کریں ۔ ہر طرف اقربا پروری اور میرٹ کا قتل ہے۔ بیروزگاری اور افراتفری سے تنگ تعلیم یافتہ نوجوان نوکریوں کی تلاش میں ملک چھوڑ رھے ہیں۔ جرنیل،جج ،بیوروکریسی ۔اور سیاسی مہرے ۔آئی ایم ایف کے غلام۔ اور امریکی کتے ہیں۔ جنہیں عوام کا،مہنگائی کا،ملکی معیشت اور اقتصادی صورتحال کا خیال نہیں۔انکی گردنیں اڑانے کے لئے اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کی ضرورت ہے۔ جو صرف جماعت اسلامی ہی لا سکتی ہے۔ پاکستان میں کرپشن صرف جماعت اسلامی ختم کرسکتی ہے۔ جس کا ماضی اس بات کا گواہ ہے۔ قوم نے پی پی، ن لیگ اور تبدیلی والوں کو دیکھ لیا ہے۔ اب ایک موقع ایماندار اور نظریاتی لوگوں کو دے کر دیکہیں۔ جو کسی کے کانے نہیں ہیں۔ جن کا ماضی داغدار نہیں ہے۔ جو صرف خدمت خلق کو عبادت سمجھتے ھیں اور خوف خداپر یقین رکھتے ہیں۔ ملک میں انار کی کے ذمہ دار عوام دشمن جماعتیں اور
انکے پارٹی کارکنان کی ساری سیاست سوشل میڈیا پر گالی گلوچ ہے۔ خدمت خلق ان کا حاصا نہیں ہے۔
ملک میں اخلاقی قدریں ۔ اخلاقی روایات اور نظریاتی تشخص تباہ کردیا گیا ہے۔ لکھ دی لعنت ایسا آزاد ہونے پر۔ جنرل باجوہ اور اسٹبلشمنٹ نے babysitting کرکے کیا حاصل کیا؟۔ سوائے ذلالت اور لعنتوں کے انہیں کیا ملا۔؟ابھی بھی وقت ہے۔ ان حرکتوں سے باز آئیں ۔ چوہدری پرویز الہی کا کہنا بھی درست ھے کہ نمک حرامی اور بیووفائی نہیں کرنی چاہئے۔ اب ھماری یہی روایات رہ گء ہیں۔ ننگی وڈیوز لیک کرنا۔بلیک میلنگ کرنا۔ گالیاں دینا۔ ایکدوسرے کی جان کا دشمن بننا۔ یہ ھے ھماری سیاست کا محور ہے۔
ھمارے ہاں حکومتیں کرپشن کے خلاف ایسے ھی جہاد کرتی ہیں۔ جیسے منہ میں سگرٹ سلگائے کوئی شخص no smoking کے پوسٹر لگا کر جہاد کررہا ہو۔جہالت بک رہی ہے۔ شعور کا یہ عالم ھے کہ تعویز دینے والا کتاب لکھنے والے دانشور سے زیادہ کمالیتا ہے۔ ایسے ھی ایک جاہل ایم پی اے اور ایم این اے بن کر کڑوڑوں کماتا ہے۔ ھمارے کلچر میں پولیٹکل ورکر کء اخلاقی تربیت کا فقدان رہا ہے۔ مخالفین کو زیر کرنا۔تضہیک کرنا۔انکا وطیرہ رہا ہے۔ ھمارے کچھ مولوی خضرات میں انانیت پائی جاتی ہے۔ جس کا اثر مقتدی بھی لیتے ہیں۔ یہ خالی برتن کی طرح کھٹرکتے ھیں ۔
دیار غیر میں مذہبی منافرت نے تقسیم کیا ہے۔ مذہبی کلچر انتہائی متشدد، داغدار،افراط و تفریط اور ایکدوسرے سیمتنفر ہے۔ منافقت بھری پڑی ہے۔ مساجد میں پاور کے حصول کے لئے لڑائیاں اور خانہ خدا کی بے حرمتی عام ہے۔ مسلکی نفرت کی انتہا پاکستان سے یورپ اور امریکہ میں بہت تیزی سے پھیل چکی ہے۔ مساجد بناتا کوئی اور ہے۔ قبضہ کوئی اور جماتا ہے۔ کچھ ابن الوقت موقع کی تلاش میں رہتے ھیں کہ کب اور کس وقت دوسرے مسلک کی مسجد میں غل غپاڑا کرنا ہے۔ ماحول خراب کرنا ہے۔ مولوی خضرات بھی اس گند اور انانیت میں بھرے پڑے ھیں ۔غیبت اور نفرت کچھ علما کا وطیرہ ہے۔ چند ماہ پہلے میں نے ایک کالم میں شرک و بدعت اور شیخ عبد القادر جیلانی رح کو معاذاللہ نبء کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا ظاہر کرنے ۔ مردے زندہ کرنے۔ بارہ سال تک ڈوبی بارات کو پانی سے نکالنے اور ہوا میں اڑنے کے متعلق جھوٹی اور من گھڑت باتوں پر کالم لکھا تو کچھ خضرات کو بہت تکلیف ہوئی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ دلیل کی بنیاد پر جواب دیتے ۔یہ مولوی خضرات گالی گلوچ پر اتر آئے۔انہیں میں نے کبھی حرمت رسول کی پاسداری کے لئے احتجاج کرتے نہیں دیکھا۔قرآن کی بے حرمتی پر کسی مظاہرے اور احتجاج کو آرگنائز کرتے نہیں دیکھا۔ان کا سارا زور دوسرے مسالک کی علما کے پیچھے نماز نہ پڑھنے پر زور ہے۔ یہی حال ھماری سیاست کا ہے۔ بیرون ملک سیاسی پارٹیوں کے قیام سے کمیونٹی کی یونٹی متاثر ہوئی ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے۔ کہ دوسری کمئونیٹیزہم سے بہت آگے نکل چکی ہیں۔ ہر کوئی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنانا چاہتا ہے جس سے ھم اپنی شناخت اور قومی تشخص کھو رہے ہیں۔
٭٭٭