متمول بے چین اور غریب مطمئن!!!

0
293
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں بہت سارے ایسے متمول اور ثروت مند افراد ملیں گے جنکی دولت سے سوائے ڈپریشن، اسٹریس ،ٹینشن، اضطراب خاطر اور بیماریوں کے ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا جبکہ روکھی سوکھی کھانے والے سکون و آرام کی نعمت سے مالا مال نظر آتے ہیں ۔ ایسے امیر افراد کی خواہش ہوتی ہے کہ اے کاش !ان کے پاس دولت نہ ہوتی بلکہ صحت،سکون،چین اور آرام ہوتا۔ اکثر دولت مند حضرات و خواتین جو اپنی دولت سے راضی نہیں ہوتے ہیں اور ان کی زندگی میں آرام و سکون کی کمی ہوتی ہے، شاید ان کا حال کچھ یوں ہے ۔ اللہ تعالیٰ قرآن کی سورہ توبہ میں فرماتا ہے۔فلا تعجِبک موالہم ولا ولادہم ِنما یرِید اللہ لِیعذِبہم بِہا فِی الحیوِ الدنیا و تزہق نفسہم و ہم کافِرون 55۔ مراد یہ ہے : اے میرے حبیب انکے مال اور اولادیں آپکو تعجب میں نہ ڈالیں بس اللہ انہیں انہی کے مال و اولاد کے سبب عذاب کرنا چاہتا ہے یعنی بعض لوگوں کو جنہیں ہم عذاب دینا چاہتے ہیں ، ان کو دولت دیتے ہیں ، آرام اور ظاہری طلب زندگی دیتے ہیں اور اس کے جواب میں ان سے صحت، نیند اور سکون چھین لیتے ہیں تاکہ انہیں عذاب دیا جا سکے ۔ دوسرے الفاظ میں بعض افراد کے لئے خود دولت ،بدبختی اور عذاب کا باعث بنتی ہے ۔ اب یہاں ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ آخر دولت کیوں باعث عذاب ہوتی ہے ؟ دولت اس لیئے عذاب کا باعث بنتی ہے کیونکہ دولت مند ہمیشہ پریشان اور اضطراب کا شکار رہتے ہیں، ایسے افراد کو دن رات یہی فکر لگی رہتی ہے کہ وہ پیسہ حاصل کرنے کے لیئے کیسے کوئی طریقہ نکالیں؟ ھل من مزید کی خواہش انہیں لے ڈوبتی ہے اور پھر اسے سنبھالیں کیسے ؟ ایسے افراد کو اس بات کی بھی فکر ہوتی ہے کہ ان سے حسد کرنے والے لوگوں سے کیسے محفوظ رہنا چاہیئے؟ وہ ہمیشہ اس چیز سے فکر مند رہتے ہیں کہ انکی دولت کو کوئی لوٹ کر نہ لے جائے ۔ کبھی کوئی دہشت گرد حصول مال کیلئے یا اغوا کنندہ تاوان کے لئے کسی فقیر پر حملہ نہیں کرتا مگر دولت مند اور معروف شخص پر دہشت گردانہ حملے کا ہمیشہ خطرہ رہتا ہے اور یوں دولت مند خود کو اس خطرے سے محفوظ رکھنے کی فکر میں رہتے ہیں ۔ ان سب باتوں کے باعث ایسے افراد کو وہ ذہنی سکون و قرار نصیب نہیں ہو سکتا ہے جو کسی عام سے، غیر معروف اورغریب آدمی کو میسر ہوتا ہے ۔ متمول ہمیشہ اپنی دولت کا بیشتر حصہ سیکورٹی، لابنگ، حصول سکون اور چین خریدنے پر لگاتا رہتا ہے۔ ساری دولت کے عوض اسے کوئی نیند یا صحت کی نعمت نہیں دے سکتا ہے ۔ اس لیئے ہمیں چاہیئے کہ کسی بھی چیز پر غرور نہ کریں اور خدا کے دیئے ہوئے مال و انعام پر قناعت اور شکر کریں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ قارون اپنی تمام دولت کے ساتھ زمین میں دفن ہے اور آج بھی گاڑا جا رہا ہے ۔ آج اس کی دولت کا نام ونشان بھی باقی نہیں رہا ہے ۔ اسلام سے قبل عرب لوگ اپنے مال ، اپنی اولاد اور کثرت خاندان پر غرور کیا کرتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ ان کا خدا انہیں زیادہ پسند کرتا ہے اسی لیئے تو خدا نے انہیں زیادہ مال و اولاد سے نوازا ہے ۔ آج بھی اکثریت اسی فکر پر قائم و دائم ہے مگر اسلام کی آمد کے بعد سے ان نظریات کی نفی کر دی گئی تھی اور واضح کر دیا گیا کہ کسی کے پاس مال و دولت کا ہونا یہ ہرگز ظاہر نہیں کرتا کہ خدا کے نزدیک وہ زیادہ محبوب ہے ۔قرآن کریم نے اس غلط منطق اور جھوٹے تفکرات کی مذمت کی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ ذمہ داری سونپی کہ مشرکین کی اس گمراہی اور نادانی کو دور کریں ۔
ارشاد ہوتا ہے کہ کہہ دیجئے ! یہ میرا پروردگار ہے جو جس کو چاہتا ہے روزی دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس سے محروم کر دیتا ہے لیکن زیادہ تر لوگ نہیں جانتے ، قرآن نے دونوں کو فتنہ کہا ہے ۔ ہاں البتہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے ہوں انہیں ان کے نیک اعمال کے بدلے خدا دو برابر جزا دے گا اور آخرت میں انہیں اعلیٰ مقام عطا فرمائے گا، اللہ ہم سب کو دنیا و آخرت میں سکون و آرام کی نعمت سے مالا مال فرمائے اور سراب کی بجائے حقیقت سمجھنے کی توفیق دے۔ آمین ثم آمین
٭٭٭ا

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here