کب تماشہ ختم ہوگا؟

0
132
جاوید رانا

قارئین کرام! گزشتہ کالم کے آغاز میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان کا منظر نامہ واپس اس دور کی طرف جا رہا ہے جب اقتدار کی ڈوریں پس پردہ کرداروں کے ہاتھوں میں ہوتی تھیں اور سیاسی کٹھ پتلیاں ان کے اشاروں پر عمل پیرا ہوتی تھیں۔ گزشتہ ہفتہ کی سیاسی سرگرمیاں ہمارے مؤقف کی تصدیق و توثیق کرتی نظر آتی ہیں۔ ایک جانب سرکار کے درباری ق لیگ اور جہانگیر ترین فعال و متحرک ہیں تو دوسری جانب سیاسی بساط کا شاطر زرداری لاہور میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہے اور پنجاب خصوصاً جنوبی پنجاب سے پی ٹی آئی کے منحرفین اور با اثر سیاسی افراد و خاندانوں کو جنہیں عُرف عام میں الیکٹیبل بھی کہا جاتا ہے پی پی پی میں شامل کرنے میں مصروف ہے۔ بات یہیں تک محدود نہیں ہے پی ٹی آئی اور عمران سے ناطہ توڑنے والے سیاسی افراد اپنے وجود کو سیاسی میدان میں برقرار رکھنے کی غرض سے علیحدہ گروپ بنا رہے ہیں، اس کی ایک مثال مراد راس اور بختیار خاندان کا ڈیمو کریٹ گروپ کی تشکیل کا اعلان ہے، تاہم اس گروپ کا مؤقف ہے کہ وہ ترین سے اشتراک نہیں کرینگے جبکہ ترین گروپ اپنے لائحہ عمل یا سیاسی پارٹی کے اعلان کیلئے تیار ہے۔ خیر ان تمام حالات و واقعات سے تو آپ ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا اور اخبارات کے توسط سے مسلسل آگاہ ہو رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے کیا یہ پاکستان اور عوام کے مفاد میں ہے یا یہ سب محض اپنے متعینہ ایجنڈے کے تحت محض ایک شخص کو سیاسی منظر نامے سے معدوم کرنے کیلئے کیا جا رہا ہے۔
عمران خان کیخلاف رجیم چینج سے 9 مئی تک جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کی تفصیل میں جائے بغیر صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ مقتدرین کی منشاء پر تمام ریاستی، حکومتی ادارے اور سیکیورٹی مسلسل اپنے ہتھکنڈوں اور ظالمانہ حرکتوں سے مصروف کار ہیں۔ کیا کچھ نہیں ہوا، عمران اور پی ٹی آئی کے ساتھیوں اور ہمدردوں حتیٰ کہ میڈیا کے لوگوں کیساتھ بدترین سلوک کے نتیجے میں سیاسی تاریخ میں پہلی بار متعدد لوگوں نے پی ٹی آئی سے علیحدگی ہی نہیں کی بلکہ سیاست سے بھی توبہ کر لی اور وجہ یہ بنائی گئی کہ ان کا سوفٹ ویئر اپ ڈیٹ کر دیا گیا ہے۔ ان ساری کارروائیوں میں جو وفادار عمران کے حق میں رہے ان پر جبر کے پہاڑ توڑے گئے۔ اس تمام سلسلے میں اعلیٰ عدلیہ ہی ایسی تھی جو مظلوموں کے حق میں ڈٹی رہی حتیٰ کہ زیریں عدلیہ نے بھی اپنا منصفانہ کردار ادا کیا جس کی تازہ ترین مثال ڈاکٹر یاسمین راشد اور پرویز الٰہی کے کیسز میں فیصلے ہیں لیکن ظلم کے جھمیلے آسانی سے ختم نہیں ہوتے۔ آئی جی پنجاب کی ڈاکٹر یاسمین راشد کیخلاف ثبوتوں اور اپیل میں جانے کی دعویداری اور ڈی جی اینٹی کرپشن کی پرویز الٰہی کے حوالے سے میڈیا کانفرنس اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے تہیہ کر لیا ہے عمران اور پی ٹی آئی کو کسی طور پنپنے نہ دیا جائیگا۔
عمران کیخلاف مقدموں اور سازشوں کے جال اس طرح سے بچھائے گئے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اسے پاکستانی سیاست سے کم از کم دس سال کے لئے سزا اور نا اہلی کی بنیاد پر آئوٹ کر دیا جائے۔ حکومتی ٹولے کی یہ سازشیں عدلیہ کے سامنے بار آور نہیں ہو رہی ہیں تو ایک جانب تو نیب نے 190 ملین پائونڈز کے القادر کیس میں بشریٰ بی بی کو بطور گواہ طلب کر لیا ہے کہ اس طرح عمران کے گرد پھندا کسا جائے تو دوسری جانب شنید یہ بھی ہے کہ 9 مئی کے حوالے سے عمران کا کیس ملٹری کورٹ میں لے جایا جائے، شانگلہ کے رہائشی انیس احمد نامی مبینہ شرپسند کے اقبالی بیان میں کور کمانڈر ہائوس پر حملے کا ذمہ دار عمران کو قرار دلوایا گیا ہے اور اس بنیاد کی بناء پر فوجی عدالت میں ٹرائل کی کہانی سامنے آرہی ہے۔ اس بناء پر عمران کا ٹرائل آرمی کورٹ میں چل سکتا ہے کہ نہیں (محض تقریروں کی بناء پر) ہم قانونی طریقے سے تو کوئی واضح رائے نہیں دے سکتے البتہ یہ ضرور جانتے ہیں کہ پاکستانی تاریخ میں کسی موجودہ یا سابق وزیراعظم پر کوئی مقدمہ نہیں چلا ہے ہمارا خیال ہے کہ عمران خان کا فوجی عدالت میں ٹرائل مقتدروں کیلئے آسان نہیں کہ اس طرح وزرائے اعظم کے حوالے سے ایک نیا چیپٹر کُھل جانے کے خدشات ہیں اور سیاسی قائدین کبھی یہ نہیں چاہیں گے۔ دوسرے، مقتدر حلقے اس مقدمے اور عمران کو کسی بھی سزا کا مطلب عوام بحران کا سبب ہی نہیں قومی نقصان و تباہی کا راستہ ہو سکتا ہے امکان یہی ہے کہ القادر کیس میں ہی عمران کو سیاسی ایرینا سے باہر کرنے کی سازش ہو۔
ہم ابتدائی سطور میں اس حوالے سے جو کچھ عرض کر چکے ہیں، وفاداریوں کی تبدیلی، کنگز پارٹیوں کی تشکیل اور موجودہ وفاداروں کی جماعتوں میں تیزی سے اضافے کیساتھ مائنس ون کے فارمولے پر امکانات یہی نظر آتے ہیں کہ طاقتور الیکشن کرانے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ ذرائع و مبصرین بھی اس کا امکان ظاہر کر رہے ہیں کہ اکتوبر میں الیکشن کرا دیئے جائینگے۔ آثار یہ بھی ہیں کہ چھوٹی چھوٹی سیاسی ٹکڑیاں منتخب کرا کر مقتدرین کی منشاء کے مطابق حکومت بنا دی جائے۔ پہلی بات تو یہ ہے ان انتخابات کا جو نتیجہ آئیگا اس کے بعد وزارت عظمیٰ اور خصوصاً پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے دو بڑی سیاسی پارٹیاں متفق ہو سکیں گی، مزید یہ کہ کنگز اور فرمائشی پارٹیاں اقتدار میں اپنا حصہ نہیں مانگیں گی دوسری بات یہ کہ عمران کی پاکستانیوں میں مقبولیت و محبت کے باعث ایسے انتخابات تسلیم کئے جائینگے۔ عمران خان پاکستانی سیاست میں ایک سچائی و حقیقت ہے اور پاکستانی سیاست سے اسے بالذات اگر مائنس کر بھی دیاجائے تو اس کا ووٹ بینک کیسے ختم کیا جا سکتا ہے۔ عمران کے نام پر اگر کھمبا بھی امیدوار ہوگا تو جیتے گا۔
ہمارا قیافہ تو کہتا ہے کہ اکتوبر میں شاید الیکشن نہ ہو سکیں اورمعاشی و سیاسی ابتری و عدم استحکام کو وجہ بنا کر کہانی پرٹیکنو کریٹ یا ایمر جنسی کا تماشہ کیا جائے یا پھر براہ راست حالات کو وجہ بنا کر میرے عزیز وطنوں سے خطاب کیا جائے کہ پاکستان میں ہر درد کی وجہ یہی ہوتا ہے۔ افتخار عارف نے ٹھیک ہی کہا ہے،
یہ سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہیں گے رات کی رات
سحر سے پہلے پہلے سب تماشہ ختم ہوگا
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کُھلے گا جب تماشہ ختم ہوگا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا کہ اس حادثۂ وقت کو کیا نام دیا جائے!
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here