بلوچستان کے وسائل اور للچائی ہوئی نظریں!!!

0
198
اوریا مقبول جان

وقت کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے معدنی وسائل صرف کوئلے تک ہی محدود نہیں رہے تھے، بلکہ ماہرینِ ارضیات نے اسے معدنی وسائل سے مالا مال ایک بہت اہم خطہ قرار دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام مرکزی محکموں کے ہیڈ کوارٹر پہلے کراچی اور پھر اسلام آباد میں منتقل کر دیئے گئے مگر ایک محکمے کا ڈائریکٹوریٹ جنرل کوئٹہ میں قائم کیا گیا اور وہ تھا جیالوجیکل سروے آف پاکستان۔اس کے ارکان بلوچستان کے صحرائوں اور پہاڑوں میں مسلسل فیلڈ میں رہتے اور یوں دفتر کی الماریاں ان رپورٹوں سے بھرتی چلی گئیں۔ ان رپورٹوں میں یہ بتایا گیا تھا، کہ کس مقام پر جپسم، کوئلہ، ماربل، گرینائٹ، سونا، تانبہ، پیتل اور دیگر معدنیات موجود ہیں۔ کوئلہ، ماربل اور گرینائٹ کی کان کنی تو قدیم طریقوں کے ساتھ قیامِ پاکستان سے پہلے سے چلی آ رہی تھی، لیکن 1952 میں سوئی کے مقام پر جب قدرتی گیس کے ذخائر دریافت ہوئے تو خطہ اہمیت اختیار کر گیا۔ سوئی نواب اکبر بگٹی کے علاقے میں واقعہ ہے، اس لئے حکمرانوں کو وہاں سے گیس نکالنے میں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ نواب بگٹی نے کمال مہربانی کرتے ہوئے پاکستانی حکام کو ایسا کرنے دیا اور اس ضمن میں کسی بھی قسم کے تحفظات کا اظہار بھی نہ کیا۔ ایک تو اس کے آغاز میں گیس کی اتنی اہمیت اجاگر نہ تھی اور دوسرا پاکستان کو بنے ابھی صرف پانچ سال ہی ہوئے تھے اور عوامی صورتِ حال خاصی جذباتی تھی۔ تمام سرداران جس طرح انگریز حکومت کے وفادار تھے ویسے ہی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے بھی نقیب بن گئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جو وظائف یا الائونس ان سرداروں کیلئے انگریز حکومت نے مقرر کئے تھے، اگرچہ کہ ان کی مقدار بہت کم تھی مگر میری معلومات کی حد تک کم از کم نوے کی دہائی تک تمام سردار مسلسل اتنی ہی رقم اپنا حق سمجھ کر وصول کرتے رہے۔ آپ ماہانہ الائونس کی رقم ملاحظہ کریں۔ سردار رئیسانی (400) روپے، سردار شاہوانی (300) روپے، وڈیرہ بنگلزئی (300) روپے، سردار محمد شہی (300) روپے، سردار لہڑی (300) روپے اور سردار کرد (300) روپے۔ یہ تو ریاست قلات کے سردار تھے جبکہ برٹش بلوچستان کے سرداروں کی ماہوار الائونس کی رقم یہ تھی، نواب مری (818) روپے، نواب بگٹی (800) روپے، نواب جوگیزی (400) روپے، سردار سنجرانی (350) روپے ، ارباب کاسی (350) روپے، سردار ذکر مینگل (400) روپے، سردار پانیزئی (240) روپے، سردار ناصر (218) روپے، سردار کھیتران (200) روپے، سردار باروزئی (168) روپے، سردار لونی (125) روپے، سردار زرکون (75) روپے اور سردار موسی خیل (60) روپے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے یوں تو 1976 میں سرداری نظام ختم کر دیا، لیکن سرداری آرڈیننس کے مطابق اس الائونس کو جاری رکھا۔ سرداری نظام کو پہلی بار بڑی ہزیمت کا سامنا 1970 کے الیکشنوں میں کرنا پڑا۔ ان الیکشنوں میں سرداروں کے دو واضح گروہ ہو گئے، ایک وہ جو بلوچستان کے حقوق کا نعرہ بلند کرتے تھے اور دوسرے وہ جو روایتی اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کرتے تھے۔ نواب خیر بخش مری، نواب اکبر بگٹی اور سردار عطا اللہ مینگل ایسی سیاست کے علمبردار تھے جو بلوچستان کی خودمختاری کی علامت تھی۔ لیکن 1970 کے الیکشنوں کا یہ خواب چند ماہ بعد ہی ایک تلخ تعبیر میں بدل گیا، جب 13 فروری 1973 کو عطا اللہ مینگل کی نو ماہ کی حکومت کو ذوالفقار علی بھٹو نے ختم کر دیا اور ان تین مزاحمتی سرداروں میں سے ایک سردار نواب اکبر بگٹی کو گورنر لگا کر بلوچستان میں ملٹری ایکشن کا آغاز کر دیا گیا۔ اس کے بعد کے چار سال مرکز صوبہ کے کشمکش کے سال ہیں۔ بلوچستان کے ہر پہاڑ پر ایف سی کے مورچے نظر آتے تھے۔ یہاں تک کہ ٹرینیں بھی مسلح پہرے داروں کی نگرانی میں چلتی تھیں۔ بلوچستان کے عوام میں ایک مزاحمتی سوچ پیدا ہو چکی تھی۔ پشتون علاقوں میں تو الیکشنوں کے دوران سرداری نظام کا مکمل صفایا ہو گیا تھا، جبکہ بلوچ علاقوں میں بھی عالم یہ تھا کہ خان آف قلات کے گھرانے کا فرد ایک میڈیکل کالج کے طالب علم عبدالحئی بلوچ سے الیکشن ہار گیا تھا۔ چار سال کی مزاحمت اور آرمی ایکشن نے بلوچستان کے عوام کو تھکا کر رکھ دیا۔ بے شمار مزاحمت کار افغانستان میں پناہ حاصل کئے ہوئے تھے اور جو باقی بچ گئے وہ پہاڑوں پر چلے گئے تھے۔ نواب مری، عطا اللہ مینگل اور گل خان نصیر جسے قائد حیدر آباد جیل میں غداری کے مقدمے بھگت رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب 6 جولائی 1977 کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو سب نے کلمہ شکر ادا کیا۔ عام معافی کے اعلان اور اسلحہ سمیت واپسی نے بلوچستان میں ایک امن کی فضا قائم کر دی۔ 1970 کے الیکشنوں کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اس ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو ایک خواب بنا دیا جائے کیونکہ ان کے نتیجے میں شیخ مجیب اور بھٹو جیسی قدآور شخصیات ابھر کر سامنے آتی ہیں، جن کا مقابلہ کرنا اسٹیبلشمنٹ کے بس میں نہیں ہوتا۔ اسی پالیسی کے تحت بلوچستان میں ایک بار پھر سرداروں اور نوابوں کو ویسے ہی لاڈلا بنایا گیا جیسے انگریز حکمرانوں کے دور میں ہوا کرتے تھے اور انہیں بلوچ اور پشتون عوام کے سروں پر مسلط کر دیا۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات نے سرداروں کی بالادستی کی راہ ہموار کی اور پھر اسکے بعد جتنے بھی انتخابات ہوئے، وہ اسٹیبلشمنٹ کی اشیرباد اور چھتری کے زیرسایہ ہی منعقد ہوئے۔ جس کے نتیجے میں اس کے بعد آنے والی ہر بلوچستان اسمبلی منقسم ہی رہی۔ کسی پارٹی کو بھی صوبے کی حکومت قائم کرنے کے لئے آج تک مطلوبہ تعداد میسر نہ آ سکی۔ یوں اس جوڑ توڑ کے ماحول میں ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کا پلہ ہی بھاری رہا۔ وہ سردار جو گذشتہ پچاس سالوں میں کبھی مزاحمت کی علامت سمجھے جاتے تھے، اب ان کی اولادیں بھی اس نو تخلیق کردہ جمہوری نظام کا حصہ بھی بن چکی ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کی شریکِ کار بھی ہیں۔ دونوں کا ایک ہی مشترکہ مقصد تھا کہ بلوچستان کے وسائل کو عوام کی دسترس سے کسی طرح دور رکھنا ہے۔ گزشتہ چالیس سالوں میں بلوچستان عالمی نقشے پر دو وجوہات کی بنیاد پر ابھر کر سامنے آیا۔ ایک اس کا ساحل جس پر قبضہ دراصل اس خطے میں مستحکم پوزیشن کی علامت اور تجارتی راستوں کا کنٹرول ہے اور دوسرا دنیا بھر کے جیالوجیکل سروے اور ان کی رپورٹیں، جو اس خطے کو معدنی وسائل سے مالامال قرار دیتی تھیں۔ سیندک سے شروع ہونے والی یہ رپورٹیں ریکوڈک اور اسکے ساتھ ساتھ ساحلی تیل کی بھی نشاندہی کرتی ہیں۔ گذشتہ بیس سالوں میں بھی جہاں افغانستان میں دہشت گردی کے نام پر امریکی جنگ مسلط تھی مگر بلوچستان کے وسائل پر للچائی ہوئی نظروں کی اہمیت میں بالکل کمی نہ ہوئی۔ لیکن اب معدنی وسائل پسِ پشت چلے گئے ہیں اور بلوچستان کے ساحل کی اجارہ داری زیادہ اہمیت حاصل کر گئی ہے۔ پہلے گوادر میں مچھلیاں پکڑنے کی جدید جیٹی بنی، پھر گوادر کی ڈیپ سی پورٹ بنی اور جیسے ہی اسے چین کے حوالے کیا گیا تو امریکی ایک دم خونخوار ہو گئے۔ بلوچ مزاحمت تحریک زور پکڑتی گئی۔ بھارت کے افغانستان میں موجود کونسل خانے اس میں بھر پور ملوث ہو گئے۔ امریکہ کا افغانستان سے بوریا بستر گول ہوا تو اس نے دسمبر 2019 میں چین کے خلاف پینٹاگون کا اہم منصوبہ وجود میں آیا جس کا مقصد چین کی معاشی پیش قدمی کو روکنا تھا۔ اس معاشی پیش قدمی کو روکنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے بلوچستان کے ساحل۔ اب یہ معاملہ خاص الجھ چکا ہے۔ عوامی مزاحمت کے پیچھے عالمی طاقتیں ہیں جو بدامنی چاہتی ہیں اور بلوچستان روایتی سرداروں کے پیچھے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ۔ گھمسان کا رن ہے، دیکھئے کیا ہوتا ہے۔ (ختم شد)
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here