مسجد قرطبہ میں طارق بن زیاد!!!

0
339
کامل احمر

یہ عالم ہم مسجد قرطبہ کے نام کرتے ہیںجسے دیکھنے کی تمنا ہمیں لڑکپن سے تھی ،ایک تصویر میں ہم نے علامہ اقبال کو قرطبہ کی مسجد میں عبادت کرتے دیکھا تھا اور وہیں انہوں نے اس عالیشان مسجد کی شان میں طویل نظم میں اپنے جزبات کا اظہار کیا تھا، یہ1832عیسوی کی بات ہے یعنی مسجد کی تعمیر کے974سال بعد اس نظم کے دو اشعار یہاں لکھتے چلیں!
اے حرم قرطبہ عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت وبود
اور یہ
تیری بنا پائیدار تیسرے ستوں بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نحتیل
(بناء بنیاد اور نحتیل کھجور کے لئے ہے) پوری نظم پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اور آپ کا شوق دیدار بڑھانے کا ذریعہ ہے۔ ہم پہلے نیویارک سے پرتگال پہنچے لزبن جو دارالخلافہ ہے دو دن پڑائو کیا شہر گھوما اور پھر اسپین کی سرحد سے پہلے پرتگال کے شہر ایوورا سے اسپین میں داخل ہوئے، گائیڈ نے اعلان کیا اب آپ اسپین میں ہیں۔ پتہ ہی نہ چلا کہ ہم نے کوئی سرحد پار کی ہے ،شہر کی شان بیان کرتے ہم اندلس کے شہر سیول(SEVILLE) اشبیلیة پہنچے تو شام ہوچکی تھی جمعہ کا دن تھا دوسرے دن گائیڈ نے بتایا۔ قرطبہ جانا ہے انگریزی میںCARDOBAکہتے ہیں۔ جمعرات کی صبح تھی اور ہمارا رخت سفر قرطبہ تھا لیکن پہلے گائیڈ نے بتایا وہ شہر کی اہم اہم جگہوں پر لے چلے گا کوئی صورت نہ تھی کہ بچ سکتے۔ آدھا دن شہر میں گھمانے اور دوسری عمارتوں میں گھمانے کے بعد اعلان ہوا لنچ کرلیں۔(اپنے پیسوں سے) اور وہ اپنی پسند کے ریستوران میں گیا وہاں پہنچے تو لگا یہ کوئیBARہے۔ اندر گئے تو میز کرسیاں نظر آئیں کہ کوئی ریستوران ہے۔ وہاں ہر جگہ ہمیں مایوسی ہوئی ،سوچا سوپ پیا جائے، معلوم ہوا ہسپانوی قوم سوپ کم اور شراب زیادہ پیتی ہے ،صبح، دوپہر اور شام اور رات گئے تک لہٰذا ٹاپا(اسنیک) پر گزارا گیا جو شراب کے نشہ کو دو آتشہ کرنے کے لئے کھایا جاتا ہے ا دھر شراب کی جگہ جب ادرک کے سوڈے کا پوچھا تو معلوم ہوا وہاں کوئی نہیں پیتا صرف سیون اپ ہے۔ مختصر کرتے ہیں۔ وہاں سے ہمارا اصل سفر شروع ہوا۔ دور سے ایک پرانی عمارت اور بہت اونچا مسجد کا مینار نظر آیا شوق بڑھا گائیڈ نے کہا کافی چلنا ہے اور وہ جو دروی والا پل ہے اس پر چل کر جانا ہے شوق میں آگے بڑھتے رہے اور مسجد قرطبہ میں داخلے کا ٹکٹ گائیڈ نے دیا اور ہم احاطے میں تھے۔ ایک پرانہ چوکور چبوترا دکھا کر گائیڈ نے بتایا کہ جگہ اس سے پہلے وسی گوتھVISIGOTHکرسچین کے چرچ کی تھی جو خستہ حالت میں تھا اسے اور دوسرے حصہ کو عبدالرحمن اول نے ذاتی رقم دے کر خریدا تھا کتنی یہ خلافت امید کا دور تھا اور785ء کا سال تھا جب مسجد قرطبہ کی بنیاد رکھی گئی جس کے اندر852ء مینار(COLUMN)ہیں جن پر اس بڑی مسجد کی چھت قائم ہے۔ اور جس کی تکمیل میں173 سال لگے تھے دوئم اور سوئم کے بعد اسے تکمیل تین خلافتوں کے بعد ہوئی اور اسے کئی دفعہ اس دوران بڑھایا گیا اسکی لمبائی اور چوڑائی اس کے اندر چلنے کے بعد نہیں معلوم کی جاسکتی ضروری ہے کہ آب ڈرون کی آنکھ سے اونچائی پر جاکر دیکھیں۔ اسلامی تعمیر کا یہ نادر نمونہ مسلم دور کی پہچان ہے۔ اور قرطبہ اس وقت اندلس کا دارالخلافہ تھا اسکے اردگرد پھیلا ہوا شہر آج بھی دیکھا جاسکتا ہے لیکن مسلمانوں کو مسجد میں اذان دینے یا نماز پڑھنے کی اجازت نہیں لیکن ہم نے موقعہ نکال کر دو نفل کھڑے کھڑے ادا کئے جب اندر داخل ہوئے اور درمیان میں کھڑے ہو کر اپنے چاروں طرف میناروں میں گھرا پایا تو رقعت طارق ہوگئی کوئی وجہ نہیں کہ علامہ اقبال نے یہاں پڑائو ڈالا تھا۔
جب عیسائیوں نے اندلس کو فتح کیا۔ اور قرطبہ کے شہر کے قاضی نے چابیاں دے دیں تو تمام مسلمانوں کو اسپین سے نکال باہر کیا اور جہاں جہاں مساجد تھیں ان کے میناروں کو منہدم کرکے چرچ اور دوسری عبادت گاہوں میں تبدیل کردیا۔ یہ دیکھ کر انتہائی دکھ ہوا کہ انہوں نے جگہ قرآنی الفاظوں اور آیات جو کمروں کے اوپر کندی ہیں کو بند کردیا ہے یا دوسری مورتیاں بنا دی ہیں لیکن اسکی تعمیر پر پردہ نہ ڈال سکے۔ کنگ فرنینڈو نے1234میں اس وقت اندلس(قرطبہ) دنیا بھر میں علم اور تحقیق کا گہوارا تھا اور ان محققوں کے قد آدم مجسمے آپ کو وہاں ملینگے۔ جب اندلس پر قبضہ کرکے مسلمانوں کو ختم کرکے انہوں نے اس عالیشان مسجد کو دیکھا تو دنگ رہ گئے اس وقت اس کے مقابلے میں کرسچین(کیتھولک) کا کوئی بھی چرچ اسکے مقابلے میں نہیں تھا لہذا فرنینڈو نے مسجد کی شان اور عظمت کو چھپانے کے لئے کیتھیڈرال(بڑا چرچ) کی تعمیر شروع کروا دی اور مسجد کی ایک دیوار اور کئی میناروں کو ختم کرکے چرچ کے حصہ کو مسجد سے ملا دیا۔ یعنی جوڑ دیا کہ اب مسجد میں آپ جوتے پہن کر گھوم پھر سکتے ہیں آپ کو اندر جاکر نہیں لگے گا کہ یہ مسجد تھی یا ہے ننگا فرش ہے قالین کی جگہ اور وہاں سے آپ کیتھڈرال میں جاسکتے ہیں جہاں ہر آدھ گھنٹے بعد پادری آکر عبادت کرواتا ہے اور لاتعداد افراد بنچوں پر بیٹھے یسوع مسیح کو یاد کرتے ہیں نہ صرف یہ بلکہ اس کے کیتھڈرال کے کالموں کو مسجد قرطبہ کے کالموںں سے اونچا رکھا ہے اور یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ جب مسلمانوں کا دور تھا تو عیسائی یہودی اور مسلمان برابر برار اپنی عبادت گاہوں میں آتے اور عبادت کرتے آپس میں لین دین کرتے تھے لیکن انہوں نے قبضہ کرتے ہی مسلمانوں سے خطرہ محسوس کیا۔ پورے اسپین میں ایک ہی زبان بولی جاتی ہے اور وہ ہے ہسپانوی زبان دوکانوں گلیوں موٹر ویز پر اسی زبان میں سائن ملینگے۔ آپ وہاں جائیں تو ترجمہ کا ایپ ڈال لیں ورنہ آپ کا کھانا پینا فاقوں میں بدل جائے گا ہر جگہ سور کا گوشت کھایا جاتا ہے اور کہیں کہیں امریکی کافی شاپ اسٹار بک مل جائے تو امریکہ یاد آتا ہے اور جلد سے جلد اسپین سے واپسی کا خیال آتا ہے۔ اقبال نے تو شاعری کرکے دل کا بوجھ ہلکا کرلیا اور ہمیں صوفی شاعر حضرت شاہ نیاز کا کلام یاد آگیا جن کا مزار(مقبرہ) بریلی انڈیا میں بدایوں سے31میل کے فاصلے پر ہے ایک خوبصورت سفید پتھر سے تعمیر کیا جگمگاتا مقبرہ ہے جسے دیکھنے1979 میں گئے تھے مسجد قرطبہ میں کھڑے نہ جانے کیوں انکا یہ شعر یاد آگیا اور ساتھ ہی طارق بن زیادہ بھی
”یار کو ہم نے جابجا دیکھا، کہیں ظاہر کہیں چھپا دیکھا،جیسے مسجد کے ستونوں کے پیچھے طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر چھپے رو رہے ہوں…….(جاری ہے) ۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here