نہ میں اندھا ہوں ، نہ بہرہ ہوں ، نہ گونگا ہوں!!!

0
97
سردار محمد نصراللہ

قارئین وطن! مئی کو روز باقی رہ گئے ہیں عمران خان کی پاکستانیوں کو آزادی مارچ کی کال کے لئے ہر شہر میں جلسے اپنے عروج پر ہیں ایسا لگتا ہے عوام نہیں فرشتوں کا جھرمٹ امڈ امڈ جلسہ گاہ کی رونق بنا ہو ہے لیکن لگتا ہے ابھی تک عوام اور عمران کی آزادی کی تحریک کلک نہیں ہو رہی عوام جلسہ گا میں آتے ہیں نعروں کا بھر پور جواب دیتے ہیں اور کال پر آنے کا وعدہ کرکے آرام سے واپس چلے جاتے ہیں جبکہ دوسری طرف کرائم پرائیم منسٹر شہباز شریف اور اس کے چالیس چوروں کا جھتہ ملکی وسائیل کو دوئیں میں اڑا رہا ہے اور ملک کی سلامتی کا ضامن ادارہ پاک فوج کرائم ٹیم کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر تماشہ کاحصہ بنی ہوئی ہے اور ان کا یہ اقدام ثابت کرتا ہے کہ سازش اور مداخلت میں وہ نیوٹرل پلئیر ہیں جس کو امریکی سرکار نے عمران کی حکومت کو ختم کرنے کا حکم دیا۔ لیکن ایک مہینہ ہو چکا ہے عمران کو حکومت سے الگ کئیے ہوئے لیکن ابھی تک کرائم حکومت کس ڈگر پر چل رہی ہے نہ امریکہ کو نہ ان کو لانے والی اسٹیبلشمنٹ کی ٹیم کو پتا ہے حالانکہ عمران خان صرف بییانیہ سے کام لے رہے ہیں سازش اور مداخلت کا رونا رونا کر رہے ہیں اور ابھی تک عوام کا رخ اداروں اور کرائم خانوں کی طرف نہیں موڑ رہے شائد یہی وجہ ہے کہ ہر چیز بڑی ایزی لگ رہی ہے۔
قارئین وطن! اس کرائم حکومت کے سربراہ کا سب سے بڑا تماشہ لنڈن میں ایک مفرور مجرم نواز شریف کو سرکاری خرچہ پر اپنے جھتہ کو لے کر سلامی دینے کے لئے لے گیا سارے کے سارے ملزم اور مجرم تھے دنیا کی تاریخ میں اس سے بڑا کھیل کروڑ عوام کے ساتھ کیا ہو گا کہ ایک پاکستان سے بھاگا ہوا مجرم ملکی سیاست کی باگیں سنبھالے ہوئے ہے۔ میرا سوال جرنل باجوہ سے ہے کہ جرنل صاحب جب عمران خان یہ کہتا ہے کہ اس نے اپنی حکومت کے خلاف سازش روکنے والوں کو بتا دیا تھا کہ اس سازش کو روکیں وہ کون تھا وہ آپ تھے جس کی ذمہ داری تھی آپ کے پاس ہی طاقت تھی ملک کی سلامتی کی یقینا اس نے چیف جسٹس آف پاکستان کو تو نہیں بتایا اس نے آئی جی پولیس کو تو نہیں بتایا ہو گا یہ صرف آپ تھے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آپ کا آئینی فرض تھا۔ عدم اعتماد کا ڈرامہ آپ کی سرپرستی کے بغیر کیسے سج سکتا تھا۔ حضور میں اپنی فوج سے بھر پور عقیدت کے طور پر والہانہ محبت کرتا ہوں میں مفتی (Mufti) میں اپنے آپ کو اپنی فوج کا حصہ سمجھتا ہوں لیکن نہ میں اندھا ہوں، نہ میں بہرہ ہوں اور نہ ہی گونگا ہوں میں دس سال کی عمر سے پاکستان کی سیاسی پھلجھڑیوں کا تماشہ دیکھ رہا ہوں آج میں سال کا ہو گیا ہوں میں لکھتا بھی ہوں پڑھتا بھی ہوں سوچتا بھی ہوں اور خواب بھی دیکھتا ہوں بقول پروفیسر قاسم پیرزادہ!
میں ایسے شخص کو زندوں میں کیا شمار کروں
جو سوچتا بھی نہیں خواب دیکھتا بھی نہیں
جرنل باجوہ صاحب شہید ملت لیاقت علی خان کی شہادت سے لے کر پھر مادرِ ملت کو ایوب کے راستے سے ہٹانے اور ان کی شہادت زیڈ اے بھٹو کا جوڈیشل مرڈر ضیاالحق اور اس کے ساتھ ساتھیوں کی شہادت اپنے سفیر کی قربانی بے نظیر کی شہادت ، مشرف کی حکومت میں آمد اور جامد اور اب عمران خان کی رخصتی کا پروانہ کہاں لکھا گیا کیسے اس پر عمل کروایا گیا بہت جلد کوئی(Bob Woodward)لکھے گا اور پھر ہمیں شرمندگی ہوگی تیر کھا کر جو دیکھا کمیں گاہ کی طرف, تو اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی۔ آج حالات کا تقاضا ہے کہ جو ہوا سو ہوا عمران کی عوامی پکار سے پہلے اس کرمنل حکومت کو چلتا کریں اور قائم مقام حکومت کا قیام عمل میں لا کر نئے انتخاب کی بنیاد رکھ دی جائے اور عوام کو ان کی سربراہی کی ذمہ داری سونپ دی جائے ان چوروں ڈاکوں اور لٹیروں سے قوم کو نجات دلوائیں شاہد اسی میں سازش اور مداخلت کرنے والوں کا کفارا ادا ہو جائے اور ہم ایک آزاد ملک کی طرح جینا سیکھ لیں۔ پاکستان زندہ باد!
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here