”چھ فٹ پُرے”یا قریب!!!

0
154
کامل احمر

کووڈ19کے اس جان لیوا موسم میں پروفیسر حماد خان کی انکے عرصے پہلے لکھے کالموں پر چھ فٹ پرے ایک دیدہ زیب کتاب ہے جس کا ہمیں انتظار تھا، بہت عرصے پہلے کرنل محمد خان کی کتاب”بجنگ آمد” اور اسکے بعد مشتاق احمد یوسفی کی اپنے ہاتھوں سے ترتیب دی گئی کتاب ”خاکم بدہن”ایک ہی نشست میں ختم کی تھی اور کئی دہائیوں کے بعد اپنے نوجوان دوست جن کا تعلق فزکس کی تدریس سے ہے۔اور واقعتاً پروفیسر ہیں نیویارک کی زبان میں حماد خان کی کتاب ”چھ فٹ پرے”ایک ہی نشست(صبح ناشتہ اور رات کے کھانے کے دوران)میں پڑھی ہر صفحہ پر لکھی طنز مزاح سے گوندھی تحریر پڑھ پڑھ کھلکھلاتے رہے۔بیگم نے پوچھا”خیریت تو ہے؟ ہم نے کہا مجبوری ہے یہ کتاب تم بھی پڑھ کر دیکھو اور یہ ہی بات ہم اردو کے پڑھنے والے اپنی عمر کے لوگوں سے کہینگے کہ اللہ میاں کو منہ دکھانے سے پہلے ہنس لو اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہو۔ہمیں معلوم ہے وہ آئی فون کان سے لگائے خراماں خراماں مسجد کی طرف دوڑ رہے ہونگے کہ جنت کا راستہ یہ ہی ہے۔حقوق الباد میں بہت کچھ آتا ہے لیکن یہاں ذکر فنون لطیفہ کا ہے۔شاعری، تھیڑ، ٹیبلو، قوالی، ڈرامے اور فلمیں(پاکستان اور ہندوستان کے علاوہ) اور وہ تحریریں جو بنی نوع انسان کو سوچنے سمجھنے، مسکرانے اور ایک دوسرے سے محبت کرنے کا حوصلہ دیں، ضرور پڑھنی چاہئیں۔
مزاحیہ تحریریں کالموں، خاکوں، کہاوتوں، انشائیوں اور فکاہیوں کی شکل میں آتی ہیں۔مشتاق احمد یوسفی نے حماد خان کی کتاب پر لکھا ہے”ان کے نشری مضامین اور فکاہیہ کالم ان کی شخصیات کی ترجمانی بھی کرتے ہیں اور انکی فکری ایچ کی گواہی بھی دیتے ہیں۔”سو ہم تصدیق کرسکتے ہیں کہ ایسا ہے اور جو کچھ ان کے دوست خالد عرفان(مزاحیہ شاعر)نے لکھا ہے درست ہے ہمارا کام انہیں شاعری کے پیمانے پر پرکھنا نہیں۔پروفیسر حماد خان نے ہمیں ڈھیروں ہنسایا ہے اور حیران کن حد تک ہماری نظر میں ان کا شمار قیام پاکستان سے لے کر اب تک کے لکھنے والے طنز ومزاح سے بھرپور کالمسٹ میں ہوسکتا ہے۔ہر چند کہ یہ کالم عرصہ پہلے لکھے گئے ہیں اور پاکستان نیوز میں چھپ چکے ہیں لیکن افسوس کہ کسی نے ہم سے اس کا ذکر نہیں کیا(ویسے ہم پاکستانی کسی کے فن کی تعریف کرنا جو چھ فٹ قریب ہو، نہیں کرتے۔البتہ میاں چنوں میں کسی کی بیٹی سی ایس ایس کا امتحان پاس کرے تو تصویر ڈال کر فیس بک پر ہزاروں مبارکباد لے لینگے صنف نازک کا معاملہ ہی کچھ ایسا ہے اس بات کو پرے کرکے ہم یہ بتاتے چلیں کہ حماد خان نے یہ تمام کالم اپنے تجربہ،مشاہدے اور حقیقت کی آمیزش سے لکھے ہیں۔افسوس یہ دور کتابوں کا نہیں رہا ورنہ اسکے ایک سال میں دو تین ایڈیشن چھپ چکے ہوتے۔اور کسی کو تحفہ بھی دیا جاسکتا تھا۔اپنے وقتوں کا کالمسٹ، صحافی اور شعراء نے مزاح اور طنز کو اپنی اپنی تحریروں میں کیا خوبصورتی سے سمیٹا ہے مجید لاہوری کا یہ قطعہ بھرپور ہے۔
پوری بات اور پورا قصہ کون لکھے گا
کتنا مشکل تھا یہ دستہ کون لکھے گا
دن اور رات کے آدھے آدھے بٹوارے میں
کتنا کم تھا کس کا حصہ کون لکھے گا یہ تقسیم کی حقیقت ہے
اس طرح منٹو نے کہا تھا”مرد کا دل عمر وعیار کی زنبیل کی طرح ہوتا ہے ہزاروں عورتیں اس میں سما جائیں پھر بھی کچھ گنجائش رہتی ہے۔ابن انشاء کا کہنا تھا”مجھ میں اور میری بیوی میں بڑا مجیب اتفاق ہے نیند کی گولیاں وہ کھاتی ہے اور سکون مجھے ملتا ہے فزکس کے تعلق سے ہم حماد خان کا فارمولا بنا سکتے ہیں۔جیسے آئن اسٹائین نے بم بنانے کا فارمولا دریافت کیا تھاE-MC2یہ1905کی بات ہے جس سے دوسری جنگ عظیم نے تباہی مچا دی لیکن حماد خان امن کے سفیر ہیں لہذا اس کا فارمولا ہوگا۔
منٹو+پطرس+مجید لاہوری+ابراہیم جلیس+ابن انشائ۔حماد خان حماد خان واحد مزاحیہ کالم نگار ہیں جس میں طنز کے کانٹے نظر آئینگے۔
انکا ہر کالم اور کالم کی ہر لائن پڑھنے پر اُکساتی ہے کتاب میں شامل40کالم ایک طرح سے قہقوں کا فائر ورکس ہیں پھلجڑیاں ذرا چھوٹا لفظ ہے اپنا تعارف اسکے علاوہ ہے جو مزاح سے بھرپور ہے لکھتے ہیں”مہنگائی کے ہاتھوں پریشان لوگ پیسہ کمانے کی دوڑ میں ذہنی سکون کھو بیٹھے ہیں۔50سال سے اوپر کے لوگ تو جیسے مسکرانا ہی بھول گئے ہیں۔انکے کالم ایئرہوسٹس پر تھوڑی تبدیلی کہ اب صرفPIAہی نہیں۔امریکہ کی ساری ایئرلائنوں کا یہ ہی وطیرہ ہے اور اب تو کووڈ19کا بہانہ ہے کہ اسٹاف کی کمی ہے لیکن حماد خان نے اس کے ادبی فوائد بیان کئے ہیں۔
”گھر میں تین ماہ(شروعات)تک بند رہنے والے شعراء ایک ہی چکی پر پسا ہوا آٹا کھا رہے ہیں اور نو عمر خوبصورت شاعرات کو پروین شاکر سے تشبیہہ دے کر”تقریب رونمائی میں طنز ومزاح کے تیر برسائے ہیں یہ لکھ کر انکشاف کیا ہے کہ ”نیویارک کے ایک استاد شاعرا (مرحوم)حنیف اخگر کے مجموعہ کلام میں کتابت کی دو سو غلطیاں تھیں یہاں ہم کہتے چلیں کہ”چھ فٹ پرے”میں کتابت کی غلطیوں کو نظر انداز کرتے ہیں کہ شاعری اور نثر میں فرق ہے”نامزد” سے نقطہ اڑا کر پڑھیں۔بضف کے مشاہدے میں یہ بات قہقہہ لگانے پر مجبور کرتی ہے”اردو کے شائقین میں برگر فیملی کی خواتین ایسے مضفین کی کتابوں کو اپنے گھر میں سجاتی ہیں جو مصنف کے ساتھ بیورو کریٹ، بینکار، یا فوجی افسر رہے ہوں۔اور”جرابیں” میں راز افشاء کئے ہیں”ہمارا وطن عزیز جہالت میں بھی خود کفیل ہے۔وقت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ہمارے دیہاتی بھائیوں نے فیشن کے طور پر چائے کے بعد جرابوں کا استعمال بھی شروع کردیا ہے پیسے چھپانے کی بہترین جگہ جرابیں ہوتی ہیں۔
اس مختصر کالم میں کس کا ذکر کریں کس کا نہیں بڑی ناانصافی ہوگی”آئینہ، کان، اونٹ رے اونٹ، کوا، بینگن، بینگن پر بادشاہ کے وزیر نے تعریف میں زمین آسمان ایک کردیا اور دوسرے ہفتے اس کے خلاف بولا تو بادشاہ نے کہا پچھلے ہفتہ تو تعریف کرتے نہیں تھکتا تھا۔اور آج، وزیر نے کہا”جہاں پناہ میں آپ کا وزیر ہوں بینگن کا نہیں”زیادہ تر کالموں میں مولویوں پر حملے کیسے ہیں اس سے جی نہ بھرا تو پورا کالم مولوی پر لکھا جو مزاح سے بھرپور ہے۔”مولوی حضرات کو چونکہ دن میں پانچ نمازیں پڑھانا ہوتی ہیں۔اس لئے وہ نمازیں پڑھانے کے علاوہ اور کوئی دوسرا کام دھندہ کر ہی نہیں سکتے”۔جب دعا کا معاملہ ہو تو مولوی صاحب بہت ہی لمبی دعا کرتے ہیں یہ دعا عربی سے سے شروع ہوتی ہے اور مقامی زبان پر ختم ہوتی ہے۔دعا کا دورانیہ طویل، مترنم ہوتا ہے کہیں کہیں وقت کی نزاکت دیکھتے ہوئے مولوی صاحب گڑ گڑانا بھی شروع کردیتے ہیں۔اسی طرح”کریلا”سیاست سے لبریز ہے اور ایک جگہ اسےEXOTICبنا دیا ہے۔
”ہائے ہماری گاڑی”پڑھنے کے بعد پطرس بخاری کے”مرزا جی کی سائیکل” کا……ٹوٹ جاتا ہے بہت خوبصورت حقیقت آمیز خاکہ ہے۔”شیطان کہیں کے”میں شیطان کی جو درگت بنائی ہے اور آج کے انسانوں کو برابری کا درجہ دیا ہے۔”
”نیند”،”محبت”،”پیسہ” بولتا ہے”اور محاورے”یہ منہ اور مُسور کی دال” کے میدان میں کیا مزاح پیدا کیا ہے۔”یہ منہ اور مسور کی دال! ”اپنے منہ میاں مٹھو”عورتوں اور شاعروں کیلئے ایجاد ہوا پے درپے محاوروں کے استعمال نے مسلسل ہنسایا ہے، جانوروں کے خانے میں”بھینس اور کتا”سب کے اردگرد پھیلی ظرافتوں سے بھرپور ہے آگے بڑھیں تو آسمان”اور ”چاند” مزاح کا عروج ہیں۔”حقہ” ایک اہم کالم ہے لیکن”غصہ” کی روحانی، مذہبی حکاریتیں اور معاشرتی خرابیاں بتائی ہیں۔”پھول” ”میراثی” اور ”عورت” کے علاوہ”شاعر اور شاعری” کو خاص طور پر اسکی تراکتوں، اطوار، عادات اور خوبیوں کے زمرے میں لیا گیا ہے لیکن انداز مزاحیہ اور طنز سے بھرپور ہے ہمیں افسوس ہے کہ ہم کوشش کے باوجود مزید نہ لکھ سکے جس کا افسوس رہے گا کہ ایسی کتابیں جو مزاحیہ تحریروں سے زندگی میں تھرک پیدا کردیں کم ہی ہیں ہر چند کہ یہ کالم بہت پہلے لکھے اور چھپے ہیں لیکن زعفران کی خوشبو اور تازگی ہے اور اس سے فیضیاب ہونا آپ کے مقدر کی بات ہے۔!!!
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here