”صحت بڑی نعمت ہے”

0
95
پیر مکرم الحق

حضرت موسیٰ علیہ سلام جب کوہ طور میں رب تعالیٰ سے ہم کلام ہونے جایا کرتے تھے تو ایک دن انہوں نے باری تعالیٰ سے سوال کیا کہ یااللہ سب سے بڑی دعا کون سی ہے تو رب تعالیٰ نے فرمایا ”صحت کیلئے دعا” بیشک اللہ پاک کی بات ہر مذہب پر سوچ اور ہر نظریہ میں سو فیصد تسلیم کی جاتی ہے۔ پرانی کہاوت ہے کہ ”جان ہے تو جہان ہے” قارئین کرام ہم سب جانتے ہیں جب تک انسان اپنے پیروں پر کھڑا ہے تو زندگی تمام دشواریوں اور محرومیوں کے باوجود خوشگوار ہوتی ہے کبھی خوشی کبھی غم تو زندگی کا ”پیکیج”PACKAGEہے تو اسے رو دھو کر قبول کرلیتے ہیں لیکن صحت فقطہ جسمانی صحت نہیں ہوتی روحانی اور ذہنی صحت یا نفسیاتی صحت اگر نہیں تو جسمانی صحت محض ایک ایسی عمارت ہوتی ہو جو اندر سے کھوکھلی ہوتی ہے اول تو یہ ممکن ہی نہیں صحت کے لیے اولین جز اگر نہیں میسر ہوں تو جسمانی صحت مکمل طور پر موجود ہوسکے لیکن پھر بھی کچھ انسانوں میں یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ روحانی اور ذہنی مریض ہونے کے باوجود بھی جسمانی طور پر بظاہر صحت مندر ہوں لیکن اسی صحت اس عمارت کی طرح ہوتی ہے جسکی بنیادیں کمزور ہوتیں ہیں روح کی طمانیت اور ذہنی توازن مکمل صحت کی بنیادیں ہوتیں ہیں ہم اکثر ایسے لوگوں سے ملتے ہونگے جو ظاہری طرح سے بہت کامیاب لوگ ہیں لیکن اگر انکی آنکھوں میں جھانک کر دیکھیں تو ایک اداسی بے چینی اور تنہائی کا احساس ہوگا یہ اسلئے کہ وہ لوگ اپنی اندر(روح) کی سوچ سے دور ہو کر محض کامیابی کے سائے کے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں اور اپنےWIFI(روح) سے انکا رابطہ کمزور ہوتا چلا جاتا ہے اسی طرح ذہنی توازن کی کئی عوامل ہوتے ہیں کئی چیزیں ورثہ میں ہماری جینز(جینیاتی ورثہ) جسکے ذریعے پیدائشی طور پر کچھ کمزوریاں اور کچھ اچھی خصوصیات بھی ہماری شخصیت پر اثر انداز ہوتیں ہیں لیکن اس کے ساتھ قدرت نے ہمارے اندر ہے طاق بھی رکھی ہے کہ ہم منفی اثرات کے خلاف مدافعت کریں اور انہیں اپنے پر حاوی نہیں ہونے دیں یہی فرق ہے کمپیوٹر اور انسان میں کے ضروری نہیں کمپیوٹر کی طرح ہم انسان اپنی پروگرامنگ پر عمل کریں ہماری روحانی سوچ میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ ہم ایک حد تک اپنی جینیاتی ورثہ سے بغاوت کریں۔ جب آپکا رابط اپنی روح سے مضبوط ہوگا تو آپکو عام زبان میں اچھے برے کی بہتر تمیز ہوگی اسی لئے انسان میں اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی خاصیت موجود ہے۔ بدتر حالات میں بھی انسان اور دھوکہ گزارا کرلیتا ہے۔ کسی حادثہ کی صورت میں اپاہج ہونے کے باوجود ایک نارمل زندگی گزارنے کی گنجائش پر انسان میں موجود ہوتی ہے فرق صرف نیت ہمت اور مستقل مزاجی کا ہوتا ہے۔ آج جو لاکھوں لوگ بے سرو سامانی میں زندگی گزار رہے ہیں انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ وہ اس طرح کی زندگی گزار سکیں گے لیکن حالات نے مجبور کیا مناسب مدد نہیں ملی تو بھی زندگی سے جڑے ہوئے ہیں گر پڑ کر گزارہ کر رہے ہیں۔ ہماری زندگیوں میں بھی اسی طرح کے ظاہری اور اندرونی(چھپے ہوئے مصائب آتے ہیں کسی کے دنیا سے چلے جانے سے یا کسی سے تعلق ٹوٹ جانے سے جن کے بغیر زندگی کا کبھی تصور نہیں کیا تھا۔ پھر بھی جینا پڑتا ہے۔ زندگی کو ایک چیلنج سمجھ کر یہی انسان کی طاقت ہے کہ وہ جینے کے راستے نکالتا ہے اللہ پاک نے ہر سانس لینے والی مخلوق میں پیدا کی ہے موسمیاتی تبدیلیاں سردی گرمی کے گھنٹے بڑھنے کی برداشت کرتے ہوئے نئے ماحول میں زندہ رہنے کی خاصیت اور کسی حد رہی برداشت کرنے کی طاقت دی ہے۔ اپنے اندر کی گتھیوں کو الجھائو کو سلجھانے کی متواتر کوششیں نہایت ضروری ہیں۔ عبادت کریں میڈیٹیشن(مراقبہ) کریں۔ اپنا محاسبہ کریں، دن کی مصروفیات سے ایک یا آدم گھنٹا نکال کر خود سے گفتگو کریں، کیا غلط کیا کیا صحیح کیا۔ اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کو جب تلک نہیں مانیں گے آپ اپنے آپ سے لڑتے رہیں گے۔اپنے آپ سے سمجھوتہ کریں BE AT PEACE WITH YOUR SELFکیونکہ جب تک آپ یہ نہیں کرینگے تو آپکے اندر کا تنازعہ آپکی صحت کا ملہ کو مکمل نہیں ہونے دیگا جوکہ آپ کی روح، ذہن اور جسمانی صحت کے نہایت ضروری ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنے معاملات کو سلجھانے کی ہمت اور اپنی رہنمائی عطا کرے تاکہ ہم انکی عافیت میں رہیں آمین یا رب العالمین۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here