جب راستے جُدا جُدا ہوں تو منزل یکجا نہیں ہوتی۔ جادو زندگی یکساں تو منزل مقصود مانند شبشاں ممتاز امریکی شاعر رابرٹ فراسٹ اپنی ایک نظم میں لکھتا ہے کہ میرے سامنے دوران گُلگشت دو راستے آگئے اور مجھے انتخاب ایک راستے کا کرنا تھا جو میں نے کیا اور دوسرے راستے کے سفر سے محروم رہا۔ اسی طرح جو حقیقی ہمسفر ہوتا ہے وہ آپ کا ہمدم و ہمراہ ہوتا ہے۔”الگ راستوں کا دُکھ” زیست کے سفر میں بڑا کرب ناک اور دلدوز ہوتا ہے۔ یہ محبت کی پگڈ نڈیوں کا سفر ہو یا زندگی کے حق ودق صحرا کا سفر ہو، دست در دست، قدم بہ قدم اور شانہ بشانہ ہمسفر ہو تو زندگی جنت وگرنہ دوزخ، ٹینسین نے کیا خوب کہا تھا وصال دوست جنت اور فراق دوست دوزخ ہے۔ ”الگ راستوں کا دکھ” ممتاز شاعر، دانشور اور کالم نگار دوست محترم ڈاکٹر طلعت شبیر کا دوسرا مجموعہ کلام ہے جو50غزلیات اور37منظومات پر مشتمل ہے۔ آپ انگریزی اور اردو کے مایہ ناز ادیب ہیں۔ آپ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں اور آپ کے کلام کی بنیادی خصوصیت سلاست ویلاغت، غفائیت وموسیقیت ہے۔ آپ کی شاعری سادہ وسلیس ہے جذبات میں شدت وحدت اور افکار میں جدت ہے۔
عشق میں طہارت، جنون میں نزاکت اور وجوان میں بصیرت ہے۔ رنگ وآہنگ شاعری رومانیت سے بھرپور سماجی مسائل پر نگارہ عمیق اور نفسیاتی معاملات پر مکمل دسترس۔ غزلیات میں دید ہجراں کا تپش سوزش پروانہ ہے۔
مرزا غالب نے کہا تھا!
ان کے دیکھنے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
لیکن طلعت شبیر کا محبوب تو کار مسیحا کرتا ہے اور مردوں کو زندہ کر دیتا ہے۔ کہتے ہیں
تیری فرقت میں مر گیا تھا میں
تیرے آنے سے جی اُٹھا ہوں میں
بڑی شاعری میں استعارات وتشبہات وتمثیلات کی معجز نمائی نمایاں ہوتی ہے جبکہ ایمائیت اور جوازیت ہر کس وناکس کے بس کی بات نہیں۔ شعر کے پہلے مصرع میں ایک دعویٰ کرنا اور دوسرے مصرع میں دلیل دعویٰ گویا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ یہ طرز شاعری کم یاب ونایاب ہے۔ غنی کا شمیری کا شعر ہے۔
غنی روز سیا ہے پیر کناں را تماشا کن
کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخارا
ڈاکٹر طلعت شبیر کی ایک غنزل کے دو اشعار وجہ تسمیہ اور جواز شعر پر ملاحظہ کیجئے!
ہم جو ڈوبے تو پھر بھی اُبھریں گے
وقت بھی ایک بھنور تو ہے آخر
کٹ گرے گا تو سیوکھ جائے گا
یہ شجر بھی تو ہے آخر
چراغ حسن حسرت کی مشہور زمانہ غزل کا ایک شعر ہے
غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا، کچھ ہم سے سنا ہوتا
طلعت شبیر کی شاعری میں مقام حیرت اور عالم بیخودی ہے کہتے ہیں
اس نے بھی کچھ کہا نہیں
میں نے بھی کچھ سنا نہیں
(جاری ہے)
یہ شعر سہیل متمنع کی بہترین مثال ہے۔ پیش محبوب شاعر مثل سنگ گُنگ ہے زبان بے زبانی سے دونوں طرف سے سکوت گبندے در کی صدا ہے۔ دل کی دھڑکنوں کے زیرو بم ہی آواز دل شکستہ ہیں ۔ الفاظ ساتھ نہیں دیتے خاموشی ببانگ دہل حکایت دل بیان کر رہی ہے اشک خونیں شمع شب کیور داغ دل بقعہ نور اور چشم گریاں رشک چراغ طور ہے۔
شاعری میں شام کا سماں خلوت جاں اور درد دل تپاں ہے۔ جب دن ڈھلتا ہے تو ڈھلتے سیایوں کے ساتھ حساس دل شاعر ڈوبنے لگتا ہے۔ ڈولتا دل سنبھلتا نہیں۔ دل مچلتا ہے۔ جذبات کا لاوہ اُبلتا ہے۔ بقول غالب
جوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ یہ شام فراق
میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہوگئیں
ڈاکٹر طلعت شبیر کی دو غزلیات میں”شام” کا لفظ بطور ردیف استعمال ہوا ہے موسم اور زمان ومکان کے اثرات انسانی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ درج ذیل اشعار میں شاعر کی آتش درُوں شعلہ بار ہے۔ یہ اشعار دل شکستہ کی شمع فسردہ کے آئینہ دار ہیں۔ کہتے ہیں
ایک دھڑکا سا لگا تھا شام سے
دل بھی مشکل میں پڑا تھا شام سے
آگیا سورج ہتھیلی پر لیے
ایک دیا ہی تو بجھا تھا شام سے
یوں جدا مجھ سے ہوا تھا شام کو
میں بھی کب اس سے ملا تھا شام سے
”ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا” کے مصداق اس رنج روح فرسا کو ڈاکٹر طلعت شبیر بھی شہر نگاراں کو عزیز جاں اور کوئے یار کو سُرمئہ چشم دلبراں گردانتے ہوئے پکار اُٹھتے ہیں
سب سلسلے تھے شہر کے اس کے وجود سے
وہ کیا گیا کہ شہر کا ہر سلسلہ گیا
جب پیار کے یہ سلسلے ٹوٹتے ہیں تو شمع زیست ٹمٹمانے لگتی ہے اور بقول شاعرہ
تم جو گل کر گئے ایک تمنا کا چراغ
محفل زیست کی سب شمعیں بجھا دیں میں نے
مشرقی طرز معاشرت اظہار عشق بھی ایک جُرم اور ناپسندیدہ طرز عمل سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ ہماری روایات و رسوم ہیں۔ جب محبت بوالہوسی اور عشق بے وفائی ٹھہرے تو حسینان پاک طنیت اس سے اجتناب برتی ہیں۔ بقول غالب
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی
راس نازک اور حساس نکتہ کو ڈاکٹر طلعت شبیر نے معاشرتی رسم کے علاوہ ایک نفسیاتی مسئلہ بھی قرار دیا ہے کہتے ہیں
ایسے سہمے ہوئے پھرتے ہیں محبت کے امیں
جانے کیوں پیار کی نظروں سے بھی ڈر جاتے ہیں
غم جاناں اور غم دوراں ایک ہی کھلے کے دوزخ میں جب ان کا اتصام ہو تو یہ غم انسان کی صورت میں اجاگر ہوتے ہیں مرزا غالب پر رومانویت غالب تھی۔ ان کی شاعری نفسیاتی، سماجی اور انقلابی ہونے کے باوجود رومانویت کے زیر اثر ہے کہتے ہیں
گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار
لیکن تیرے خیال سے غافل نہیں رہا
رومانس انسان کا فطری جذبہ ہے۔ شاعر انسان دوست اور آزادی پرست ہوتا ہے ڈاکٹر طلعت شبیر کی شاعری نجم جاناں کی داستاں، غم دوراں کا بیان اور غم انساں کی ترجمان ہے۔ یہ”تثلیث غم” حقیقی شاعری کا غم نہاں ہے۔
غزل مسلسل کا نمائندہ اور سرتاج میرتقی میر ہے۔ ڈاکٹر طلعت شبیر کا رنگ غزل دیکھئے
پھر ستاروں کا سفر درپیش ہے
اور چراغوں کو سحر درپیش ہے
چاہتوں کے دکھ مقدر ہوگئے
نفرتوں کی رہگذر درپیش ہے
کیا خزاں نے ہیرہن بدلا نہیں
کیاثمر کو ایک شجر درپیش ہے
ڈاکٹر طلعت شبیر کی شاعری میں ارض وطن سے محبت اور اپنے آبائی گائوں سے دیوانہ وار وارفتگی ودبستگی کا اظہار ان کے کئی اشعار میں ملتا ہے کہتے ہیں
پھر نہ ہیری ہوگی نہ ہی شیشم کا درخت
گائوں کا گھر نہیں ہوگا تو کہاں جائیں گے
اپنے بچپن کے مسکن اور خوابوں کی جنت اپنے گائوں کا ذکرارن دلدوز اشعار میں کرتے ہیں
میں اپنے گائوں کو پھر لوٹ جائوں
یہی اب دل میں حسرت رہ گئی ہے
گائوں میں کٹ گرا ہے مرا شجرسایہ دار
بستی میں اپنے درد کا درماں نہیں رہا
آپ کے اشعار میں ”گرد” کا لفظ جبرواستحصال، بربادی اور بدحالی کا استعارہ ہے۔ ”گرد سفر” کا استعارہ اکثر شاعروں کے کلام میں”غبار زندگی” کی علامت ہے بقول پیدل دہلوی
ہر کُجا رفتم غیار زندگی درپیش بُود
یارب این خاک پریشان ازکجا برداشتم
ڈاکٹر طلعت شبیر نے زندگی کی تلخیوں اور تلخ حقیقوں کو ایک شعر میں ایسے بند کردیا ہے۔ جس کے لئے ساحر لدھیانوی کو پوری کتاب”تلخیاں” لکھنا پڑی کہتے ہیں
یوں زندگی کی گرد میں سب ہی آتے رہے
جس نے رخ حیات سنوارا، نہیں رہا
”الگ راستوں کے دکھ” آپ کی ایک نظم ہے جو کتاب کا سرنامہ بھی ہے آپ کے اشعار میں جا بجا ”دکھ” کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ کہتے ہیں
چرچے بھی میرے دُکھ کے یہاں پرتھے جابجا
دنیا سے اپنا غم بھی چھپانا پڑا مجھے
اس تمام دکھ درد جو واردات عشق مجازی ہے کے ساتھ ساتھ آپ کے کلام میں سماجی تلخیوں، معاشرتی ناہمواریوں اورسیاسی بداعتدالیوں کی جھلک موجود ہے
مجھ کو معلوم سردار ہوا
کیسے جی سکتا ہے مرتا ہوا شخص
پھر راستوں کی گرد میں اٹ کے وہ رہ گئے
پھر رہنمائے قافلہ سر پر نہیں رہا
شہر بیدار ہوا چاہتا ہے
کچھ تو اس بار ہوا چاہتا ہے
ایک مدت سے ترے تابع تھے
اب کے انکار ہوا چاہتا ہے
کتاب کے آخر میں37منظومات مختلف موضوعات پر ہیں جو بہت لنواز بھی ہیں اور دلگداز بھی ہیں۔ ”انجانا خوف” میں نفسیاتی الجھن کا ذکر ہے ”بے نام رشتہ” میں بھی نفسیاتی اور سماجی معاملات اظہر من الشمس ہیں۔”الگ راستوں کا دکھ”، ”مسافت”، ”بھرم”، ”تکریم” رومانوی نظمیں ہیں۔ نظم ”وقت” میں گائوں کی یاد اور ”میں کہاں روتی ہوں بابا” ایک دو سالہ بیٹی کی ماں باپ سے فطری پٍُر خلوص محبت کا ذکر ہے۔
ان نظموں میں رومانوی، انقلابی، سماجی اور نفسیاتی رنگ وآہنگ ہے۔ علامہ اقبال نے شاعر کو”دیدہ بنیائے قوم” کہا ہے۔ شاعر احب شعور کو کہتے ہیں شاعر کی نگاہ تیز بیں شاہین کی نگاہ ہوتی ہے۔ شاعر صاحب بصیرت ہوتا ہے۔ شاعر فطرت ولیم ورڈز ورتھ نے شاعر کو بیرومیٹر کہا ہے۔ ڈاکٹر طلعت شبیر چشم بصیرت دل حساس، ضمیر زندہ اور شعور زندگی کے حامل ہیں اور ان کا یہ دکھ ہر انسان کا دکھ ہے۔ یہ شاعری وساحری نہیں بلکہ وہ نوائے پریشان ہے جس کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا
مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھو
کہ میں ہوں محرم راز درُون میخانہ
٭٭٭٭٭٭٭