الیکشن محاذ آرائی فائنل رائونڈ میں داخل (وزیراعظم پر توہین عدالت کی تلوار لٹکنے لگی)

0
62

اسلام آباد (پاکستان نیوز) حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان پنجاب میں الیکشن کے حوالے سے محاذ آرائی آخری مرحلے میں داخل ہو گئی ہے، عدالت اعظمیٰ نے حکومت کی جانب سے ملک بھر میں ایک ہی روز الیکشن کرانے کی درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ پنجاب میں 14مئی کو الیکشن کا فیصلہ اٹل ہے ، حکومت 27 اپریل تک فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنائے ورنہ سنگین نتائج کے لیے تیار رہے ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے الیکشن میں سیکیورٹی کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس آئی ، ڈی جی ایم آئی سے اپنے چیمبر میں ملاقات کے دوران بریفنگ لی ، ذرائع کے مطابق فوج نے الیکشن پر ڈیوٹی سے معذرت کر لی ہے ، سپریم کورٹ نے بدھ کو اپنے تحریری حکم نامے میں حکومت کو ڈیڈ لائن دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت کا تقاضہ ہے کہ 27 اپریل 2023 سے پہلے مناسب اقدامات کیے جائیں اور خاص طور پر اس تاریخ تک پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے عام انتخابات کے لیے 21 ارب روپے کی رقم کی فوری طور پر فراہمی یقینی بناتے ہوئے کمیشن کو فراہم کی جائے۔عدالت نے سات صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامے میں کہا کہ ‘جو کوئی فریق آئینی مقصد کو پورا نہیں کرے گا اس کی طرف سے آئینی فرض اور ذمہ داری کی سنگین خلاف ورزی ہوگی۔تحریری حکم نامے کے مطابق ‘عدالت کے احکامات کی نافرمانی اور انحراف خود سنگین نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ اس لیے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی گئی کہ وہ وفاقی کابینہ اور وزیر اعظم کی توجہ معاملے کی سنگینی کی طرف مبذول کرائیں تاکہ اس معاملے کا جلد از جلد تدارک کیا جائے۔عدالت نے وزارت دفاع کی جانب سے دائر درخواست جس میں چار اپریل کے حکم کو واپس لینے کی استدعا کی گئی تھی، کو ناقابل سماعت قرار دے دیا۔کابینہ کی جانب سے فنڈز کے اجرا کے معاملے پر عدالت نے کہا کہ ‘آئین کے ذریعہ تصور کردہ پارلیمانی جمہوریت کے نظام میں حکومت کو ہر وقت قومی اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہونا چاہیے۔ چونکہ وزیر اعظم کے عہدے پر فوقیت حاصل ہے، اس لیے وزیر اعظم کو ہر وقت قومی اسمبلی کی اکثریت کی حمایت حاصل ہونی چاہئے۔اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ایک امکان یہ ہے کہ حکومت اور وزیر اعظم قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں، لیکن اٹارنی جنرل نے واضح طور پر کہا کہ ایسا نہیں ہے۔ وفاقی کابینہ اور وزیر اعظم کو ہر وقت قومی اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد حاصل تھا اور ہے،عدالت نے تحریری فیصلے میں کہا کہ موجودہ مقاصد کے لیے، ہم اٹارنی جنرل کے اس بیان کو قبول کرتے ہیں۔حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کی جانب سے فنڈز جاری کرنے کے مطالبے کو مسترد کرنے کے سنگین آئینی مضمرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کروانے کی متفرق درخواستوں پر سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ہونے والی سماعت کل ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی گئی ہے۔بدھ کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں ملک میں انتخابات ایک ساتھ کروانے کی متفرق درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ سماعت کرنے والے بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بھی شامل ہیں۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مخاطب ہو کر کہا کہ ‘آپ ہمارا نقط? نظر سمجھ چکے ہیں، انتظامی امور قائمہ کمیٹی کو بھجوانے کی کوئی مثال نہیں ملتی، انتخابی اخراجات ضروری نوعیت کے ہیں غیر اہم نہیں، حکومت کا گرانٹ مسترد ہونے کا خدشہ اسمبلی کے وجود کے خلاف ہے اور اس کے سنگین نتائج بھی ہو سکتے ہیں۔سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ ‘میری درخواست پر ڈی جی ملٹری آپریشنز نے بریفنگ دی۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ‘فوجی افسران کو بتایا کہ دوران سماعت سکیورٹی کا معاملہ نہیں بتایا گیا، ان کو بتایا ہے کہ عدالت کا فیصلہ ہو چکا ہے، پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ‘کیا آئین بالادست نہیں ہے؟ افواج نے ملک کے لیے لازوال قربانیاں دی ہیں افواج پاکستان کا سب کو شکر گزار ہونا چاہئے، چیف جسٹس نے کہا کہ ’27 مارچ کو عدالتی کارروائی شروع ہوئی، چار اپریل کو فیصلہ آیا، پہلے چار تین کا معاملہ تھا پھر فل کورٹ کا معاملہ آیا۔ بائیکاٹ کرنے والے درخواست گزاروں نے سکیورٹی کا مسئلہ نہیں اٹھایا۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن اور وزارت دفاع کی درخواستیں فیصلے واپس لینے کی بنیاد نہیں، الیکشن کمیشن نے پہلے کہا وسائل دیں الیکشن کروا لیں گے، اب کہتے ہیں ملک میں انتشار پھیل جائے گا، الیکشن کمیشن پورا مقدمہ دوبارہ کھولنا چاہتا ہے۔ وزارت دفاع کی رپورٹ میں عجیب سی استدعا ہے، کیا وزارت دفاع ایک ساتھ الیکشن کروانے کی استدعا کرسکتی ہے؟ وزارت دفاع کی درخواست ناقابل سماعت ہے، ٹی وی پر سنا ہے کہ وزرا کہتے ہیں اکتوبر میں بھی الیکشن مشکل ہے۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو معاملے پر مذاکرات کی پیش رفت کا بتایا کہ ‘کل بلاول بھٹو، وزیراعظم سے ملے تھے، کوشش ہے ملک میں سیاسی ڈائیلاگ شروع ہو، ایک کے علاوہ تمام حکومتی جماعتیں پی ٹی آئی سے مذاکرات پر آمادہ ہیں، بلاول آج مولانا فضل الرحمان سے مل کر مذاکرات پر قائل کریں گے، معاملات سلجھ گئے تو شاید اتنی سکیورٹی کی ضرورت نہ پڑے، تمام سیاسی جماعتیں مذاکرات پر آمادہ ہو رہی ہیں، امیر جماعت اسلامی بھی شہباز شریف اور عمران خان سے ملے، دونوں فریقین نے مذاکرات کے لیے کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں، عدالت کچھ مہلت دے تو معاملہ سلجھ سکتا ہے۔یہ سن کر چیف جسٹس نے کہا کہ ‘حکومت نے آج پہلی بار مثبت بات کی۔ اٹارنی جنرل کی بات میں وزن ہے، منجمد سیاسی نظام چلنا شروع ہو رہا ہے، 14 مئی قریب آ چکا ہے، سیاسی جماعتیں ایک موقف پر آ جائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے۔انہوں نے کہا، 90 دن کا وقت 14 اپریل کو گزر چکا ہے۔ آئین کے مطابق 90 دن میں انتحابات کرانے لازم ہیں۔ آپ کے مطابق یہ سیاسی انصاف کا معاملہ ہے۔ جس میں فیصلے عوام کریں گے۔ آپ کی تجویز ہے کہ سیاسی جماعتیں مذاکرات کریں۔ عدالت نے یقین دہانی کرانے کا کہا تو حکومت نے جواب نہیں دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک دن انتحابات کرانے کی درخواستوں پرسیاسی جماعتوں کو کل کے لیے نوٹس جاری کر رہے ہیں۔ نگران حکومت 90 دن سے زیادہ برقرار رہنے پر بھی سوال اٹھتا ہے۔ اس معاملے کو زیادہ طویل نہیں کیا جا سکتا، پانچ دن عید کی چھٹیاں آ گئی ہیں، میرے ساتھی ججز کہتے ہیں پانچ دن کا وقت بہت ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ‘جب بحث ہورہی تھی تو اٹارنی جنرل نے یہ نکتہ کیوں نہیں اٹھایا؟ اٹارنی جنرل کو نہ جانے کس نے 4/3 پر زور دینے کا کہا، اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے کس نے ان کو یہ مؤقف اپنانے سے روکا، مذاکرات کی بات ہے تو آٹھ اکتوبر پر ضد نہیں کی جا سکتی، یک طرفہ کچھ نہیں ہوسکتا، سیاسی جماعتوں کو دل بڑا کرنا ہو گا۔دریں اثنا ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ ندیم انجم ، ڈی جی ایم آئی اور ڈیفنس سیکریٹری نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس منیب اختر اورجسٹس اعجاز الحسن سے چیف جسٹس کے چیمبر میں ملاقات کی، یہ ملاقات ڈھائی سے تین گھنٹے جاری رہی۔یہ ملاقات مس کنڈکٹ کے زمرے میں نہیں آئے گی کیونکہ یہ ملاقات مکمل طور پر آن ریکارڈ تھی لیکن اس ملاقات میں ہونے والی گفتگو خفیہ تھی اس کے علاوہ یہ ملاقات تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر کی گئی ہے۔ جج صاحبان پنجاب اسمبلی کے الیکشن 14مئی کو کرانے کا آرڈر دے رکھا ہے لہذا یہ ملاقات اسی کیس کے سلسلے میں ہوئی ہے۔مذکورہ افسران سے ملاقات کے لیے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے خود درخواست کی تھی،یہ ملاقات فوجی حکام کی خواہش پر نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس نے اس ملاقات کے لیے اٹارنی جنرل آف پاکستان سے بات کی کہ وہ پنجاب میں الیکشن کے حوالے سے فوجی حکام سے مل کر بریفنگ لینا چاہتے ہیں کہ کیا فوج دستیاب ہو گی یا نہیں۔ پھر اٹارنی جنرل نے وزات دفاع کے ذریعے یہ پیغام بھجوایا اور پھر وزیر اعظم اور آرمی چیف کی رضا مندی سے یہ ملاقات ہوئی۔یہ ملاقات اس سارے پراسیس کے تحت کی گئی اس لیے اس ملاقات کو خفیہ ملاقات یا مس کنڈکٹ نہیں کہا جا سکتا۔ اس ملاقات میں کچھ اور لوگ بھی موجود تھے۔ملاقات میں تینوں ججوں کو بتا یا گیا کہ کیا حالات ہیں ، ان حالات میں الیکشن کا انعقاد پنجاب میں کیوں ممکن نہیں ، فوج کی کیا مصروفیات ہیں ، پاکستان کن حالات سے گزر رہا ہے ، معاشی حالات کیا ہیں اور کس طرح سے یہ الیکشن دہشتگردی اور سیاسی عدم استحکام کو ساز گار فضا فراہم کر سکتے ہیں۔ جج صاحبان کو جو بریفنگ دی گئی اس میں ڈی جی ایم او موجود نہیں تھے ، اس میں خالصتاً ملک کی صورتحال پر بات کی گئی۔ فوج نے یہ پیغام پہنچا دیا ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں اور پنجاب میں الیکشن کے لیے دستیاب نہیں ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here