فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ
محترم قارئین! رہنمائے کاملاں حضرت ابوالحسن علی ہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخش رضی الہ عنہ اپنے عہد کے امام یکتا اور اپنے طریق میں یگانہ تھے۔ آپ تصوف میں حضرت جنید بغدادی رضی اللہ عنہ کا مسلک رکھتے تھے۔ میدان شریعت میں حنفی تھے۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ سے بے حد متاثر تھے۔ مشائخ عظام کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت داتا علی ہجویری رضی اللہ عنہ اسلام کے ان بزرگان دین، اولیاء اللہ، علماء فضلاء میں سرفہرست ہیں۔ جنہوں نے برصغیر پاک وہند میں کفربت پرستی کے طلسم کو پاش پاش کیا اور پرچم توحید و رسالت کو بلند کرنے کی انتھک کوشش کی۔ آپ علم اصول اور علم تصوف میں بڑا مقام رکھتے تھے۔ دین متین کی تشہیر وتبلیغ میں آپ نے فعال کردار ادا کیا۔ اسی وجہ سے آپ عوام الناس میں امام العارفین، زبدہ، السالکیں، حجتہ الکاملین اور سند ا لواصلین کے شہرہ آفاق القابات سے مشہور ومعروف ہوئے۔ آپ کفیت ابوالحسن اسم گرامی علی بن عثمان تھا۔ آپ عوام میں داتا علی ہجویری اور گنج بخش کے القابات سے مشہور ہوئے۔ آپ ہاشمی سید ہیں اور آپ کا سلسلہ نسب آٹھویں پشت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے ملتا ہے۔ آپ تقریباً400میں غزنی شہر کی ایک بستی ہجویر میں پیدا ہوئے۔ اس لئے آپ ہجویری کہلائے آپ کے والد بزرگوار کا اسم گرامی سید عثمان جلابی رضی اللہ عنہ ہے۔ جلاب بھی غزنی سے ملحق ایک دوسری بستی کا نام ہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم ہجویر محلہ میں حاصل کی۔ پھر اعلیٰ تعلیم کے لئے بہت سے ممالک کے سفر کئے آپ کے اساتذہ میں حضرت شیخ ابوالعباس اشقانی، شیخ ابوجعفر محمد بن المصباح الصیدلانی، شیخ ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوازن القشیری، شیخ ا بوالقاسم بن علی بن عبداللہ الگرگانی، ابوعبداللہ محمد بن علی المعروف داستانی بسطامی، ابوسعید فضل اللہ بن محمد مہینی اور ابواحمد مظفر بن احمد بن ہمدان رضی اللہ عنھم کے اسماء گرامی تاریخ میں ملتے ہیں شیخ ابوالعباس اشقانی کے بارے میں حضرت مخدوم علی ہجویری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ علم اصول و فروع میں اور اہل تصوف میں اعلیٰ پایہ کے بزرگ ولی اللہ تھے۔ آپ کے پیرو مرشد حضرت شیخ ابوالفضل محمد بن حسن ختلی رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ کشف المجوب شریف میں خود لکھتے ہیں کہ آپ کا سلسلہ طریقت حنیدیہ ہے اور آپ کو سلسلہ جنیدیہ کی نسبت پر فخر تھا۔ آپ فرماتے ہیں کہ میرے پیرو مرشد علم تفسیر اور حدیث کے جید عالم تھے اور وہ طریقت میں شیخ بغدادی کا مسلک رکھتے تھے۔ نیز آپ اس بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے پیرومرشد شیخ ابوالفضل ختلی رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کسی کو بارعب نہیں دیکھا۔ آپ کا ارشاد ہے دنیا دن ہے اور ہم روزہ دار ہیں۔ جس روز آپ کے کامل مرشد شیخ ابوالفضل ختلی رضی اللہ عنہ کا وصال باکمال ہوا تو اس دن آپ ان کے پاس بیت الحسن میں تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ مرشد پاک نے میری گود میں سرمبارک رکھا ہوا تھا اس وقت میرے دل میں لوگوں کی عادت کی طرح ایک سچے دوست ورہبر کی جدائی کا بہت غم تھا آپ نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے بیٹا میں اعبتقاد کا ایک مسئلہ تجھے بتاتا ہوں اگر تو اپنے آپ کو اس کے مطابق کریگا تو سب رنجوں سے چھوٹ جائے گا۔ جان لے تو کہ سب واقعات وحالات(زندگی اور موت) من جانب اللہ تعالیٰ ہے تجھے اللہ تعالیٰ کے فعل پر نہ کوئی جھگڑا کرنا چاہئے اور نہ دل میں رنج کرنا چاہئے اس کے سوا کوئی لمبی وصیت نہ فرمائی۔ اور جان جان آفرین کے سپرد کردی۔ حضرت داتا علی ہجویری رضی اللہ عنہ کی لاہور آمد کے متعلق مئورخین کی آراء یہ ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ پہلی مرتبہ حضرت سلطان محمود غزنوی رحمتہ اللہ علیہ کے حملہ ہانسی کے وقت اور دوسری مرتبہ تیرکمانوں سے مسعود غزنوی کی شکست کے بعد431ھ میں لاہور تشریف لائے۔
اس بدامنی کے دور میں غزنی کے باشندوں خصوصاً علماء اور بزرگان دین نے ہجرت کی اور حضرت داتا علی ہجویری رضی اللہ عنہ نے اپنے دو ساتھیوں حضرت ابوسعید ہجویری اور حضرت حماد سرخسی رضی اللہ عنھا کے ہمراہ لاہور پہنچے۔ لاہور آمد کے بعد آپ نے ایک بلند ٹیلہ پر قیام کیا۔ اسی جگہ پر آپ کا مزار پر انوار بنایا گیا ہے آپ نے ایک مسجد تعمیر کروائی جوکہ آپ کے مزار پر انوار کے ساتھ ابھی بھی زیارت گاہ خاص وعام ہے۔ یہیں آپ نے تبلیغ دین اور رشد وہدایت کے کارنامے سرانجام دیئے۔ مگر علماء کرام نے رخ قبلہ پر اعتراض کیا آپ نے ان سب علماء کو دعوت نماز دی اور خود امامت فرمائی، دوران نماز جب سب نمازیوں نے قبلہ کا رخ خانہ کعبہ کی طرف اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا تو بعد نماز ان سب علماء نے حضرت داتا علی ہجویری رضی اللہ عنہ سے اپنی غلطی کا اعتراف کیا بلکہ معذرت کی بعدازاں آپ رضی اللہ عنہ نے اسی مسجد ہی سے شمع اسلام فروزاں کی اور پورے برصغیر میں اسلام کی روشنیاں منور کیں۔ آپ نے بیشمار غیر مسلموں کو متاثر کیا اور وہ حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ بلکہ رائے راجو گورنر لاہور آپ کے دست حق پرست پر مسلمان ہوا۔ حضور محدث اعظم رضی اللہ عنہ اکثر آپ کی بارگاہ میں حاضر رہتے حضور شمس المشائخ اور قائد ملت اسلامیہ رضی اللہ عنہ اور دام فیوضہ بھی اسی معمول پر رہے اور ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجے بلند فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭