پاکستان میں الیکشن کے لیے جو ماحول بنایا گیا ہے ، اس کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ہے یعنی ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کو کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے اور اس کے لیڈر کو پابند سلاسل کر دیا گیا ہے جبکہ اس جماعت کے انتخابی نشان ”بلے ” کو بھی چھین لیا گیا ہے ، جماعت کے کارکنوں کو پارٹی پرچم اٹھانے، نعرے لگانے پر سرعام اٹھا لیا جاتا ہے ، ایسے اقدامات تو مارشلا کے دور میں بھی دیکھنے کو نہیں ملے، یہی وجہ ہے کہ عالمی میڈیا نے بھی موجودہ الیکشن پر سنگین خدشات کا اظہار کیا ہے ، الجزیرہ نے پاکستانی الیکشن سے متعلق سرخی بنائی کہ عمران خان کی غیرموجودگی میں الیکشن پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے ، اسی طرح بلومبرگ نے لکھا کہ پاکستانی نوجوانوں کے ترجمان عمران خان موجودہ الیکشن سے باہر ہیں ،ایسے ماحول میں الیکشن کو کیسے منصفانہ قرار دیا جا سکتا ہے ، کونسل برائے خارجہ تعلقات کی جانب سے بتایا گیا کہ پاکستان کے اس ہفتے ہونے والے انتخابات پہلے ہی ایک مذاق میں تبدیل ہو چکے ہیں، جو کہ آزاد یا منصفانہ نہیں ہے۔ایف ٹی نے لکھا کہ اگر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوتے تو عمران خان بھاری اکثریت سے جیت جاتے۔اے پی کے مطابق ووٹرز حیران ہیں کہ کیا نئے انتخابات سیاسی جھگڑوں میں پھنسے ہوئے ملک کو بدل دیں گے۔”بی بی سی اردو ” کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کو مؤثر طریقے سے غیر جانبدار کیا گیا ہے لیکن اس کے بجائے، ملک بھر میں سیاسی تقسیم مزید گہری ہوتی نظر آ رہی ہے۔گارڈین کے مطابق فوج نے چوتھی بار سابق وزیر اعظم پر اعتماد کیا، بہت سے لوگوں کو یقین ہے کہ انتخابی نتائج کا فیصلہ ہو چکا ہے، ”گیلپ ”کی جانب سے لکھا گیا ہے کہ 10 میں سے سات پاکستانیوں کو اپنے انتخابات کی ایمانداری پر اعتماد نہیں ہے۔نیویارک ٹائمز کے مطابق پاکستانی انتخابات ووٹوں کی دھاندلی، سیاسی ہارس ٹریڈنگ اور بدعنوانی سے نشان زد ہیں۔عالمی میڈیا کے ساتھ امریکہ کی جانب سے بھی پاکستان کے انتخابی عمل میں شفافیت کو یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے ، واشنگٹن میں محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے پریس بریفنگ میں کہا کہ امریکا پاکستان کے انتخابی عمل کو کلوز مانیٹرنگ کر رہا ہے، پاکستان کے عوام کو انتخابات میں خوف اور تشدد کے بغیر اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے۔توشہ خانہ، سائفر کیس اور عدت کیس میں سزاؤں کی وجہ سے عمران خان رواں انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔ جبکہ الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی الیکشن کے معاملے پر ان کی جماعت سے بلے کا نشان واپس لے لیا تھا۔اب تحریک انصاف کے امیدوار آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور انھیں مختلف انتخابی نشانات الاٹ کیے گئے ہیں۔ پارٹی نے اپنے حمایت یافتہ امیدواروں کی فہرستیں اپنی ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پر شیئر کی ہیں۔2018 کے مقابلے اس بار مجموعی طور پر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے والوں کی تعداد لگ بھگ دگنی ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے کل 17 ہزار 816 امیدوار میدان میں ہیں جن میں سے چھ ہزار 31 امیدواروں کا تعلق مختلف سیاسی جماعتوں سے ہے جبکہ 11 ہزار 785 آزاد امیدوار ہیں۔ ان میں بڑی تعداد میں وہ امیدوار ہیں جو تحریک انصاف کی حمایت کا دعویٰ کرتے ہیں۔دوسری طرف ایک مرتبہ پھر اسٹیبلشمنٹ نے ملک کے الیکشن پر اثرا نداز ہونے کی گھنائونی کوشش کی ہے ، اسٹیبلشمنٹ کے منتخب کر دہ نمائندے اب بھی پاکستانی سیاست میں پیش پیش ہو کر ایجنڈوں کی تکمیل میں مصروف ہیں جبکہ بے وقوف سیاستدان ہر مرتبہ کی طرح اس مرتبہ بھی ان پیادوں سے مار کھانے پر مجبور ہیں، جن کی حکم عدولی پر ہر مرتبہ کی طرح حکومت کو بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے ۔اس مرتبہ بھی اسٹیبلشمنٹ نے چال چلتے ہوئے مسلم لیگ ن اور استحکام پاکستان پارٹی کو آگے لانے کا فیصلہ کیا ہے جس کی واضح تصویر منظر عام پر آ چکی ہے ، کئی حلقوں میں استحکام پاکستان پارٹی کے رہنمائوں کے مقابلے میں مسلم لیگ ن نے اپنے نمائندے کھڑے نہیں کیے جس سے ان دونوں جماعتوں کے درمیان الحاق واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے ، لیکن جب بھی نئی حکومت اسٹیبلشمنٹ کی بات ماننے سے انکار کر ے گی تو ماضی کی طرح ان کو حکومت سے نکال باہر کیا جائے گا اور ہر مرتبہ کی طرح اس مرتبہ بھی نواز شریف یہ کہتے نظر آئیں گے کہ ”مجھے کیوں نکالا”، اس لیے اب سیاستدانوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں کھیلنے کی بجائے حقیقی معنی میں جمہوری حکومت کو بحال کریں کیونکہ اسی میں پاکستان اور اس کی قوم کی بقا ہے ، جمہوری استحکام کے بغیر ملک کو آگے نہیں لے جایا جا سکتا ۔
٭٭٭