”اسٹیبلشمنٹ کے اداکار”

0
22
ماجد جرال
ماجد جرال

موجودہ ڈیجیٹل ترقی سے قبل بلیک اینڈ وائٹ زمانے میں لوگوں کے پاس وقت بیتانے کے لیے بے تحاشہ ذرائع نہیں تھے، ریڈیو زیادہ مقبول رہا جبکہ اس کے بعد ٹیلی ویژن کی آمد نے لوگوں کی زندگی میں انقلاب برپا کیا جیسا کوئی عام سا فون استعمال کرتے ہوئے شخص کو اچانک آئی فون ملنے سے زندگی میں آئے۔ اسی لیے پاکستان ٹیلی ویژن پر کام کرنے والی شخصیات رات کے اندھیرے میں بھی اگر گلی محلوں میں نکلتی تو لوگ ان سے محبت کا بے حد اظہار کرتے تھے۔ یہ سارا بیگراونڈ بتانے کا مقصد یہ تھا کہ اس وجہ سے لوگ ٹیلیویژن پر مختلف ڈراموں اور فلموں میں اداکاری کرنے والی شخصیات کے ساتھ کس قدر جذباتی وابستگی رکھتی تھی۔ ایک بار ہمارے ایک چاچا جی، ایک فلم میں اداکار محمد قوی کی ولن کے ہاتھوں موت پر بہت روئے، کچھ عرصے بعد ایک اور فلم میں محمد قوی کے ہاتھوں کسی کی پٹائی ہوتے دیکھ کر بڑے خوش ہوئے۔پاکستان میں آج سیاسی صورتحال بھی کچھ اسی طرح کی بن چکی ہے، یوں لگتا ہے جیسے پاکستان ایک اسٹیج ہے، عوام کی تفریح کے لئے سیاسی ڈرامے، سیاسی کردار اور سیاسی واقعات کی بھرمار ہے۔چند فوجی جرنیل، جج اور طاقتور بیوروکریٹس المعروف اسٹیبلشمنٹ ان سیاسی ڈراموں کی تخلیق کار ہے تمام سیاسی جماعتیں دراصل ضرورت کے مطابق اپنے اداکار کرائے پر فراہم کرتی ہے، کبھی ایک ہیرو(وزیراعظم) تو کبھی دوسرا ہیرو بن جاتا ہے، کبھی ایک دوسرے کی لفظی پٹائی کرتا ہے تو کبھی دوسرا اداکار وقت بدلنے پر لفظی گولہ باری کرتا ہے۔عمران خان حکومت میں تھا تو اس کے وزیر عجیب و غریب بیانات دیتے تھے مثلا روٹی آدھی کھائو،اب مشترکہ حکومت عوام پر مسلط ہے تو ان کے وزرا چائے کا آدھا کپ پینے جیسے بیانات دیتے نظر آتے تھے پھر پی ڈی ایم اور نگران حکومت آئی تو بھی ایسے ہی چونچلے بیانات سننے کو ملے۔ اب انتخاب قریب ہے تو وعدوں کی صورت میں عوام کو دانہ ڈالا جارہا ہے۔لگتا ہے کہ ان سیاسی ڈراموں کے تخلیق کار ہی فیصلہ کرتے ہیں کہ اب کون ہیرو یعنی حکومت میں ہوگا۔ وگرنہ جن کاموں پر تنقید کرکے کوئی جماعت حکومت حاصل کرتی، وہ انہی کاموں مثلا پٹرول و بجلی کی قیمتوں وغیرہ کو اتنی بے رحمی سے بڑھانے کے احکامات جاری نہ کرے۔مختصرا سٹیبلشمنٹ کے ڈرامے میں ہیرو کا کردار ادا کرنے کی حامی بھرنے والی سیاسی جماعت کو لیڈنگ رول دے دیا جاتا ہے، باقی جماعتیں ولن کا کردار ادا کرتی ہیں، ڈرامہ فلاپ ہونے لگے تو ولن کو اٹھا کر ہیرو بنا دیا جاتا ہے، مگر عوام کا المیہ یہ ہے کہ انہوں نے چاچا جی کی طرح اپنے اداکاروں سے جذباتی وابستگی اپنا رکھی ہے۔ جب وہ کسی کو مارتے ہیں تو یہ خوش ہوتے ہیں جب وہ کسی سے مار کھاتے ہیں تو ان کا غصہ آسمان کو چھونے لگتا ہے، یا رونا شروع کر دیتے ہیں۔ مگر ایک بات یاد رکھیں کہ ان سیاسی ڈراموں کو دیکھنے کی قیمت عوام کی جیب پر ہی جاتی ہے جس کو کو عرف عام میں مہنگائی کہتے ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here