صرف عورتوں کے نصیب ٹھنڈے نہیں ہوتے کچھ مرد بھی ٹھنڈے نصیب والے ہوتے ہیں ، دنیا سمجھتی ہے بس عورت مظلوم ہے کہ وہ صبح سے لے کر شام تک شوہر کی خدمت میں لگی رہتی ہے۔ ناشتے بناتی گھر صاف کرتی بچوں کو دیکھتی ہے پھر دوپہر کا کھانا اور پھر رات کا کھانا اور اس دوران کئے جانے والے مزید چھوٹے چھوٹے کام ۔مگر کوئی نہیں جان پا رہا کہ اس موبائل نے عورت کو نکما اور نکھٹو بنا دیا ہے یا تو وہ موبائل پہ لکھ لکھ کر دانشور بننے کے چکر میں بچوں اور شوہر سے لا پرواہ ہے کہ جو تعریف شوہر سے ملنی تھی وہ اب تحریر میں بناوٹی سگھڑاپا بتانے پہ غیر مردوں سے مل رہی یا پھر موبائل پہ نت نئے ڈرامے فلمیں نیٹ فلیکس نے اس قدر تباہی مچا دی ہے کہ تھکا ہارا آیا شوہر گھر کے کچن میں گھستا ہے تو نا روٹی پکی ہے نا سالن نا جھاڑو دی گء ہے نا پھیلا سامان سمیٹا گیا ہے ۔بچوں کا رنگ دن بدن پیلا زرد ہو رہا ہے ، بچے سلانٹی اور چپس کے پیکٹ چاکلیٹ کھا کر وقتی بھوک مٹا چکے ہیں، مرد نے گھر میں ہر سہولت دی ہے مگر مینج کرنا کس بلا کا نام ہے یہ آج کی عورت نہیں جانتی نا جاننا چاہتی۔بچے پیدا کرنا اتنا بڑا کام ہے کہ اب وہ مزید کسی قسم کا کام کرنا اپنی توہین سمجھتی ہے ، بازاروں میں چلے جائیں ،مرد بازار میں صبح نان چنے کھاتے ، چاٹ کھاتے دوپہر کو تندروں پہ روٹیاں لیتے رات کو باربی کیو کی لائن میں لگے نظر آئیں گے۔ایک وہ بیویاں تھیں جو ہاتھوں سے کپڑے دھوتی تھیں ، مصالحے پیستی تھیں مشینیں آ بھی گء تو نکالنا دھونا نچوڑا برحال تھا ہی ایک یہ عورت ہے جسے آٹو میٹک مشین میسر ہے ، جسے ہر طرح کا مصالحہ پیسنے کے لیے مشین چاہیے۔شوہر گھر کا کھانا کھانا چاہتا ہے وہ بیوی کے ہاتھ کی روٹی کھانے کی چاہ رکھتا ہے ۔وہ پڑھا لکھا با شعور مرد ہے وہ بیوی سے اونچی آواز سے بات نہیں کر سکتا کہ چھوٹے بچوں پہ بڑا اثر نا پڑے اس کے لحاظ کو اس کی کمزوری سمجھنے والی عورت اسے اتنا ذہنی تنا دیتی ہے کہ بالآخر وہ ذہنی اور جسمانی سکون کے لیے ایک قدم اٹھاتا ہے۔وہ دوسری شادی کرتا ہے چاہے چھپ کر کرے۔اسے اب کھانا وقت پہ ملتا ہے اسے بھی اب پرواہ نہیں کہ بیوی نے گھر کو سمیٹا کیوں نہیں ، کھانا وقت پہ کیوں نہیں تیار ، کیوں وہ اس کی جسمانی ضرورت سے نالاں ہے اس کا زیادہ وقت اب گھر سے باہر گزرتا ہے ۔جب شوہر نا کھانا مانگتا ہے اور نا کسی اور ضرورت کے لیے سوال کرتا ہے تو بیوی میں تشویش کی لہر دوڑتی ہے جاسوسی کرتی ہے تو پتا چلتا کہ ایک اور شادی کر چکا جہاں اسے ذہنی جسمانی آسودگی حاصل ہے تو اب وہی بیوی رو رو کے زمانے بھر کے سامنے مظلوم بن جاتی ہے کہ آخر مجھ میں کیا کمی تھی ۔دنیا جو نا ان کے گھر کے معاملات جانتی نا خاموش شوہر کے اندر کء سال تک اٹھنے والے طوفان اور عزت نفس کی دھجیاں اڑاتے لمحات سے واقف ہیں وہ شوہر پہ لعن طعن کرتے ہیں اسے ڈراتے ۔بات سنو وہ جو اللہ ہے نا وہ دنیا والوں سے بڑا مختلف ہے وہ جو کہتا ہے نا کہ جس نے رائی کے دانے کے برابر نیکی کی ہو گی اسے دکھا دوں گا اور جس نے رائی کے دانے کے برابر بھی برائی کی ہو گی اسے دکھا دوں گا تو وہ سب پہ نگاہ رکھے ہوئے ہے اسے ایک فریق کی بات سن کر فیصلہ نہیں دینا اسے خود فیصلہ کرنا ہے ہر ہر لمحے اور سکینڈز کو سامنے رکھ کر ۔اس لیے صرف مردوں کو زلیل نا کیجئے ذرا اپنی اداں پہ بھی غور کیجئے۔اللہ کریم ہمیں آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا کرے آمین، یہ تحریر نکھٹو عورتوں کے لئے ہے سلیقہ شعار اور نفیس عورت کے لئے نہیں سو خاطر جمع رکھیے۔
٭٭٭