جینا ہے خوب اوروں کی خاطر جیا کرو!!!

0
16

دنیا بھر کے مانے اور جانے پہچانے نیورو سرجن، ڈاکٹر سعید باجوہ صاحب، کچھ دن قبل اس دارِ فانی سے کوچ کر کے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے، یہ اندوہناک واقعہ جمعتہ المبارک دسمبر کو پیش آیا۔ ان کی رہائش ریاستِ نیو یارک کے وسط میں بنگھمپٹن/جانسن سٹی کے علاقے میں تھی اور نیو جرسی میں ہمارے گھر سے تین چار گھنٹے کی ڈرائیو کرکے، ان کے ہاں پہنچا جا سکتا تھا۔ڈاکٹر باجوہ صاحب ایک انتہائی بہادر اور اپنے پیشے کے ماہر انسان تھے جب دیگر سرجن حضرات، مریضوں کی گنجلک سرجری سے انکار کر کے، کیس ڈاکٹر باجوہ کی جانب بھیج دیتے تھے تو ڈاکٹر باجوہ صاحب کمال مہارت سے اپنی تخلیقی صلاحیتیں استعمال کرکے، وہ سرجری بااحسن و خوبی مکمل کر دیا کرتے تھے۔ سرجری کی جدید تکنیکیں ایجاد کرنے اور پھر استعمال کرنے میں انہیں کوئی عار نہیں ہوتی تھی۔ سائبر نائف اور مصنوعی ڈسک جیسی مشینوں کی تخلیق میں ان کا بڑا حصہ تھا۔ڈاکٹر سعید باجوہ صاحب، پاکستانی نژاد امریکی تو تھے ہی، وہ جماعتِ اسلامی سے منسلک ایک بڑے خاندان کے ایک نمایاں چشم و چراغ بھی تھے۔ شروع شروع میں تو میں ڈاکٹر باجوہ صاحب کو گھر کی مرغی دال برابر والے محاورے کے تحت، بس ایک اور تحریکی ڈاکٹر سمجھتا تھا لیکن جب میں نے ان کی مہارت اور سرجری کے طریقہ کار پر CNN پر نشر ہونے والی ایک ڈاکومینٹری دیکھی تو بڑی حیرت ہوئی کہ ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی؟ڈاکٹر باجوہ صاحب کی زندگی کا ایک اور روشن پہلو، ان کا بہت زیادہ سخی ہونا تھا۔ غریبوں اور مسکینوں کے لئے وہ دل کھول کر فنڈز دیا کرتے تھے۔ انکی غیر معمولی خدمات کے پیشِ نظر مشہور چیریٹی، اکنا ریلیف نے انہیں ایک بڑے ایوارڈ بھی دیا تھا تاکہ دوسروں کیلئے ترغیب کا ذریعہ بنے۔ ڈاکٹر صاحب، غیر مسلموں کی فانڈیشنز کی بھی دل کھول کر مدد فرماتے تھے۔ نیویارک میں قائم ہونے والے سب سے پہلے سائبر نائف سنٹر کیلئے، ان کی طرف سے کی گئی امداد سے آج بھی ہزاروں مریض فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک سنٹر انہوں نے کراچی میں قائم کرنے میں بھی بھرپور مدد کی تھی۔پاکستان میں وہ چھوٹی بڑی سینکڑوں تنظیموں کے ذریعے انسانیت کی خدمت کیا کرتے تھے۔ پاکستان میں اپنی خیراتی سرگرمیوں کی وجہ سے، ڈاکٹر صاحب کو / کے بعد ایک بہت بڑی مشکل سے بھی گزرنا پڑا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ڈاکٹر صاحب پر ایک جھوٹا اور لغو الزام لگانے کی کوشش کی کہ انکی غریبوں کیلئے کی گئی امداد کا انہوں نے کوئی ذاتی فائدہ اٹھایا ہے۔ اس طرح کے الزامات، دیگر پاکستانی نژاد امریکیوں پر بھی لگے۔ باقی لوگوں نے تو معافی تلافی کر کے جان بچائی لیکن ہمارے بہادر اور اصول پسند، ڈاکٹر باجوہ صاحب ڈٹ گئے۔ اپنا مقدمہ بہت احسن انداز سے لڑا اور کسی بھی ناکردہ گناہ کو تسلیم نہیں کیا۔ڈاکٹر صاحب سے میرا تعلق دو واسطوں سے قائم رہا۔ وہ مولانا یوسف اصلاحی کے پروگرام، اپنے ہاں بڑی باقاعدگی سے رکھتے تھے اور میں مولانا محترم کے ساتھ خواہ مخواہ کا مہمان بن کر ان کے ہاں پہنچ جاتا تھا۔ دوسرا تعلق، ڈاکٹر زاہد بخاری صاحب کی وجہ سے تھا، جن کی ڈاکٹر باجوہ صاحب سے خاصی قربت تھی۔مجھے یاد ہے کہ جب ڈاکٹر صاحب کے محل نما مکان کی تعمیر مکمل ہوئی تو مولانا محترم کے ساتھ، ان کے ہاں جانا ہوا۔ مکان کو اپنی خواہش کے مطابق تعمیر کرنے میں ان کا خاصا وقت صرف ہوا تھا۔ بہرحال یہ مکان، ان کے اعلی ذوق کی ایک اعلی علامت ہے۔ ان کا یہ مکان، ایک ترک آرکیٹیکٹ نے ڈیزائن کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اس طرح کے بڑے مکانوں کا سامنے والا حصہ، اس طرح بنایا جاتا ہے کہ وہ باہر سے آنے والوں کو فوری نظر نہیں آتا۔ فرنٹ ایلیویشن چونکہ بہت خوبصورت ہوتی ہے، اس لئے گھر کو نظرِبد سے بچانے کیلئے، اسے ایک خاص طریقے سے سائیڈ پر بنایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر سعید باجوہ صاحب اپنی ساری پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور خیراتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ، اپنے علاقے کی مسجد میں ایک خادم کے طرح موجود رہتے تھے۔ ان جیسے مصروف سرجن کیلئے، کمیونٹی کے دیگر کاموں کیلئے بھی وقت نکال لینا، میرے لئے بہت حیرت انگیز تھا۔ وہ واقعی اپنی ساری زندگی، بڑی سادگی سے، دوسروں کی خاطر جیتے رہے۔ چند سال قبل، میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر تیمور حسن (مرحوم) کی ایک سرجری ڈاکٹر ہاسپٹل، لاہور میں ہوئی تو ڈاکٹر باجوہ صاحب نے خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے، وہاں کے سرجن سے مسلسل رابطہ رکھا اور مجھے ساری معلومات سے آگاہ رکھا۔ انہیں افسوس تھا کہ تیمور کا کینسر خاصا پھیل چکا ہے اور اب علاج ناممکن ہے۔
ڈاکٹر صاحب چند سال سے ایک بیماری کے باعث، صاحبِ فراش تھے۔ اپنی ساری تکالیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ ان جیسے متحرک فرد کیلئے، بستر پر گزرنے والی زندگی بہت مشکل تھی۔ ایک مرتبہ، میں اور مولانا محترم ان سے ملنے گئے تو بڑے خوش ہوئے۔ جسمانی کمزوری کے باوجود، خوب باتیں کیں۔ مشکل حالات میں بھی انہیں صبر کا پیکر پایا۔
اپنی بہت ساری خوبیوں کی وجہ سے وہ کمیونٹی کی ایک ہر دلعزیز شخصیت تھے۔ اب جب وہ اس دنیا میں نہیں رہے تو یہ شعر ان پہ صادق آتا ہے۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
ڈاکٹر سعید باجوہ، کا متبادل پیدا کرنا تو ناممکن ہے لیکن اپنی زندگی میں ڈاکٹر صاحب نے لاتعداد نوجوانوں کی رہنمائی اور مینٹرشپ کی۔ وہ تعلیم اور ریسرچ کے بہت بڑے سرپرست تھے۔ نئی ٹیکنالوجی کو آگے بڑھ کر اختیار کرنے والوں میں شامل رہتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے بڑی کامیاب زندگی گزاری اور میرے دل میں ہمیشہ یہ خلش رہے گی کہ کاش ڈاکٹر صاحب کچھ مزید عرصہ ہمارے درمیان رہ جاتے۔ بہرحال، اللہ کی رضا کچھ اسی طرح تھی کہ وہ بہت جلد اپنے رب کے حضور واپس چلے جائیں۔ دعا ہے کہ اللہ انکی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا کرے۔ آمین،ڈاکٹر صاحب! اللہ آپ کا سفر آسان کرے۔ بس ہماری طرف سے یہی عرض ہے کہ
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہم سو گئے داستاں کہتے کہتے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here