لفظ علم اس قدر عام اور مشہور ہے آپ کسی عام سے عام اور سادہ سے سادہ شخص سے بھی اس کی بابت پوچھیں گے تو وہ شخص بھی اس لفظ سے باخبر نظر آئے گا لیکن اگر حقیقی علم پوچھیں گے تو شاید ہزاروں میں کوئی ایک ملے جو علم کی حقیقت سے آگاہ ہو۔modren educationکو ہم روزی کمانے کا ذریعہ تو کہہ سکتے ہیں۔ معلومات کا خزانہ تو کہہ سکتے ہیں لیکن یہ حقیقی علم نہیں البتہ کوئی فرائض علوم سیکھنے کے بعد کسی دنیوی علم میں مہارت حاصل کرکے ملک وملت میں خیر بانٹتاہے تو یہ بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔ اس لئے کے ثواب کا دارومدارتو بہرحال نیت پر ہے، ہم بات کر رہے ہیں۔ حقیقی علم کی تو یاد رکھ لیجئے۔ قرآن وسنت میں جہاں بھی علم کا لفظ آئے گا تو اس سے مراد قرآن وحدیث کا علم ہے ،اس لئے کے تمام علوم کا اصل ماخذ قرآن ہی ہے اسی نے علامہ اقبال مرحوم نے کہا تھا !
قرآن میں ہو غوطہ ذن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
یہ علم ہی ہے جسکو اللہ کریم نے حضرت انسان کے مشرف کا سبب بتایا ایک دن رحمت عالمۖ مسجد نبوی میں تشریف لائے آپ نے دو حلقے دیکھے ایک حلقہ ان کا تھا جو اللہ کا ذکر کر رہے تھے اللہ سے دعائیں مانگ رہے تھے دوسرا حلقہ ان کا تھا جو علم سیکھ رہے تھے اور سکھا رہے تھے۔اللہ کے حبیبۖ نے فرمایا یہ دونوں خیر پر ہے مگر جو علم سیکھ اور سکھا رہے ہیں وہ ذکر والوں سے افضل ہیں ،اسی طرح حضور اکرمۖ نے ارشاد فرمایا اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے۔ اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے آج وہ امت جنہوں نے علم وفن کے میدان میں ایک سنہری تاریخ رقم کی ان پر جہالت کے سائے منڈلا رہے ہیں۔
تجھے آباد سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار تو ثابت وہ سیارہ
گنواری ہم نے اسلاف سے جو میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا
آج ہماری ذہنی غلامی کا عالم یہ ہے کہ ہم نے سارے کا سارا علم انگریزی بولنے کو سمجھ لیا حالانکہ یہ ایک قوم کی زبان کے علاوہ اور کچھ نہیں چونکہ وہ قوم دنیوی میدان میں معاشی اور سیاسی میدان میں ترقی کر گئے اس لئے یہ ہماری ضرورت بن گئی اگر اسے صرف ضرورت سمجھا جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن صورتحال تو بالکل برعکس ہے۔ اب آئیے سردست ہمیں کرنا کیا ہے۔ سب سے پہلا کام ہے اپنی اولادوں کو ماہر قرار کرام کی زیرنگرانی قرآن کریم ناظرہ کی تعلیم دلوائیں۔ اس کی تفہیم وتشریح کا مرحلہ نو بعد کا ہے ہماری آج کی نسل تو اوپر سے دیکھ کر درست قرآن نہیں پڑھ سکتی اس لئے مساجد میں سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں اس کا باقاعدہ اہتمام کیا جائے۔ اسی طرح بنیادی دینی تعلیم جس میں عقائدواعمال کی اصلاح کے ساتھ ساتھ عبادت، نماز، روزہ، زکوة، حج وغیرہ نکاح اور طلاق کے مسائل سکھانا یہ والدین کے ساتھ وارثان منبروعراب اور ریاست سکھانا یہ والدین کے ساتھ وارثان منبروعراب اور ریاست کی بھی ذمہ داری ہے۔ آپ صحافت ریاست وتجارت ڈاکٹریٹ اور انجینئریئرنگ یعنی کسی بھی میدان میں اپنی خدمات پیش کریں اسلام آپکو قطعاً نہیں روکتا لیکن اگر آپ بنیادی دینی علم سے نابلدہو کر دنیوی علم میںPHDبھی کرلیں تو یاد رکھیں آپ نے روزی کمانے کا ہنر سیکھا ہے حقیقی علم ہے آپ دور میں اگر ہم واقع ہی ایک مشکل ہجوم کو ایک زندہ قوم بناتا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں حقیقی علم یعنی قرآن وسنت کا علم سیکھنا ہوگا اور پھر دوسروں کو سکھانا ہوگا۔ اللہ کریم ہمیں علم منافع کی دولت سے سرفراز فرمائے ربی زدنی علما۔(آمین)۔
٭٭٭٭٭٭