پاکستان میں یہ بات کسی شک و شبہ کے بغیر واضح ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ جب جو قدم اُٹھانا چاہے ہمارے سیاست دان ان کے راستوں میں پھول بچھاتے ہیں اور ان پھولوں کے ساتھ لگے کانٹوں کو بھول جاتے ہیں ، فوجی عدالتیں بھی ایک ایسا عمل ہی تھا جس کو پاکستان کے سیاست دانوں نے اس وقت بھرپور سپورٹ کی اور جب ان پھولوں کے ساتھ لگے کانٹوں نے ان کے پائوں میں چبنا شروع کیا تو آوازیں اُٹھنے لگیں۔ پاکستان میں ملٹری کورٹس کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو یہ ایکٹ ہمیشہ سے ایک متنازعہ موضوع رہا ہے، جو عموما شدت پسندی، دہشت گردی، اور عدالتی نظام کی خامیوں کے پس منظر میں وجود میں آیا۔ ملٹری کورٹس کا مقصد دہشت گردی سے متعلق مقدمات کو جلد نمٹانا اور مجرموں کو فوری سزا دلانا ہے، لیکن ان عدالتوں کی فعالیت اور قانونی حیثیت پر مختلف حلقوں میں سوالات اُٹھتے رہے ہیں۔ اس مضمون میں ملٹری کورٹس کے قیام، ان کی افادیت، اور ان سے وابستہ مسائل کا جائزہ لیا جائے گا۔ملٹری کورٹس پہلی بار پاکستان میں 2015 میں قومی ایکشن پلان کے تحت قائم کی گئیں۔ یہ فیصلہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گرد حملے کے بعد ہوا، جس میں بڑی تعداد میں معصوم بچوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔ ان عدالتوں کا بنیادی مقصد دہشت گردی سے متعلق مقدمات کو تیز رفتار طریقے سے نمٹانا اور سویلین عدالتی نظام کی ناکامیوں کو دور کرنا تھا۔ ملٹری کورٹس کے قیام کے لیے آئین میں 21ویں ترمیم کی گئی، جو ان کے لیے قانونی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ملٹری کورٹس کے حامی ان کے قیام کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق ملٹری کورٹس دہشت گردی سے متعلق پیچیدہ مقدمات کو کم وقت میں نمٹاتی ہیں، جو سویلین عدلیہ میں ممکن نہیں تھا۔ان عدالتوں کی موجودگی سے دہشت گردوں میں خوف پیدا ہوا اور ان کے نیٹ ورک کو کمزور کیا گیا جبکہ ملٹری کورٹس کو سکیورٹی فورسز اور انٹیلی جنس اداروں کا مکمل تعاون حاصل ہوتا ہے، جو شواہد کی فراہمی کو آسان بناتا ہے۔مگر دوسری آواز بھی ہے جس سے ملٹری کورٹس کو شدید تنقید کا سامنا رہا ہے، اور ان کے قیام پر کئی قانونی اور اخلاقی سوالات اٹھائے گئے ہیں مثلا ملٹری کورٹس میں شفافیت اور غیرجانبداری پر سوالات اٹھتے ہیں۔ ملزمان کو مکمل قانونی دفاع کا حق نہیں ملتا، اور ان کے مقدمات بند کمرہ سماعت میں چلائے جاتے ہیں۔آئین پاکستان ہر شہری کو سویلین عدالتوں میں مقدمہ چلانے کا حق دیتا ہے، لیکن ملٹری کورٹس اس حق کو محدود کرتی ہیں، جو آئینی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ملٹری کورٹس کے قیام نے سویلین عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو متزلزل کیا، جس سے عدالتی نظام میں مزید کمزوریاں پیدا ہوئیں۔ملٹری کورٹس کے فیصلے اکثر سیاسی بنیادوں پر کیے جانے کے الزامات کی زد میں رہے ہیں، جو ان کی غیرجانبداری پر شکوک پیدا کرتے ہیں۔کیا ہمارے پاس کوئی متبادل نظام بھی دونوں اطراف کے نظریات کو سامنے رکھتے ہوئے ہوسکتا ہے مثلا ملٹری کورٹس کے قیام کی بجائے عدالتی نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے اور ججز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے، دہشت گردی سے متعلق مقدمات کے لیے سویلین دائرہ کار میں خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں۔سویلین عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کے عمل کو تیز اور مثر بنایا جائے۔ تحقیقات کے عمل کو مضبوط اور شفاف بنایا جائے تاکہ مقدمات میں ٹھوس شواہد پیش کیے جا سکیں۔ملٹری کورٹس کا قیام دہشت گردی کے خلاف ایک وقتی حل تھا، لیکن اس کا طویل مدتی استعمال جمہوری اقدار اور آئینی اصولوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک مضبوط اور شفاف عدالتی نظام ہی پاکستان میں قانون کی بالادستی کو یقینی بنا سکتا ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سویلین عدلیہ کی صلاحیتوں کو بڑھانا اور قانونی اصلاحات متعارف کروانا ہی ایک پائیدار حل ہو سکتا ہے۔
٭٭٭