”ٹیبل ٹاک کا آغاز”
پاکستان تحریک انصاف اور حکومت میں طویل محاز آرائی کے بعد آخر کار بات چیت سے مسائل کا حل نکالنے پر اتفاق ہوا ہے اور دونوں جانب سے فریقین نے مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر بات چیت کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے ، حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم کو یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ انہیں مذاکرات کے حوالے سے جیل میں عمران خان سے ملاقات کی سہولت دی جائے گی ، پی ٹی آئی کی جانب سے متعدد پر وفاق پر چڑھائی ، احتجاج اور جلائو گھیرائو کے باوجود بات نہ بننے پر مذاکرات کا رخ اختیار کرنا یقینی تھا لیکن اب بال حکومتی کورٹ میں ہے کہ وہ ان مذاکرات کو کامیابی کی طرف لے کر جاتی ہے یا پھر اسے ادھورے چھوڑ کر ایک مرتبہ پھر ملک میں سیاسی انتشار کو ہوا دے گی۔ پاکستان تحریک انصاف کو اس وقت مذاکرات کی میز پر لانے میں بڑا کردار اس امر کا ہے کہ بار بار کے احتجاج اور مظاہروں کے بعد اب ‘عوامی طاقت کے ذریعے مطالبات منوانے کی ان کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے تاہم سوال یہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی کو ایسا محسوس ہو رہا تھا تو اس نے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کیوں کر رکھا ہے۔پاکستانی معاشرے میں سول نافرمانی جیسی تحریک کے لیے گنجائش خاصی کم ہے۔پی ٹی آئی اس کو دباؤ کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ ایسی کوئی بھی تحریک شروع کرنے یا کرنے کے بعد بھی مذاکرات جاری رہیں گے۔حکومت کبھی بھی پہلی بار ہی میں پی ٹی آئی کے اس قدر زیادہ مطالبات تسلیم نہیں کرے گی۔عمران خان کی رہائی مذاکرات کا آخری مرحلہ تو ہو سکتا ہے، پہلا نہیں ہو سکتاحکومت چاہے گی کہ پی ٹی آئی پہلے اپنے مطالبات سامنے لائے اور پھر ان میں سے چند پر سمجھوتہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ پاکستان تحریک انصاف کو بھی اس بات کا احساس ہے۔پی ٹی آئی کے پاس اس وقت جو دو بڑی بارگیننگ چپس ہیں وہ ان ہی پر حکومت سے بات چیت میں اپنی طرف سے آفر کے طور پر استعمال کر سکتی ہے۔وہ حکومت کو پر امن سیاسی ماحول اور بیرون ملک حکومت مخالف سرگرمیوں میں کمی یا ان کو ختم کرنے جیسی چیزیں آفر کر سکتی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حکومت پی ٹی آئی کے کسی بھی مطالبے پر فیصلہ کرنے سے پہلے چاہے گی کہ اس میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی مرضی شامل ہویہی وجہ ہے کہ جہاں بھی 26 نومبر کا ذکر آتا ہے تو حکومت نو مئی کا ذکر ضرور لے آتی ہے۔ وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو آن بورڈ رکھے گی۔اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد کے بغیر کسی بھی مطالبے پر حکومت کے لیے اپنے طور پر فیصلہ کرنا ممکن نہیں ہو گا۔مذاکراتی کمیٹیوں کے پہلے ان کیمرہ اجلاس میں حکومتی کمیٹی میں شامل نائب وزیرِ اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما اسحاق ڈار، مشیر وزیرِ اعظم برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ اور سینیٹر عرفان صدیقی، حکومتی جماعت پیپلز پارٹی سے سابق وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف، سید نوید قمر، متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم) سے ڈاکٹر فاروق ستار جب کہ استحکامِ پاکستان پارٹی(آئی پی پی) کے علیم خان موجود تھے۔دوسری جانب اپوزیشن سے مذاکراتی کمیٹی میں سابق اسپیکر قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحب زادہ حامد رضا اور چیئرمئن مجلس وحدتِ مسلمین کے سربراہ سینیٹر علامہ ناصر عباس شامل ہوئے۔وزیرِ اعظم کی جانب سے مذاکراتی کمیٹی کی تشکیل کا فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب جیل میں موجود سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا الٹی میٹم دے رکھا ہے۔پی ٹی آئی کے مطابق عمران خان حکومت سے دو مطالبات کر رہے ہیں۔ ان کا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ تمام انڈر ٹرائل سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔عمران خان کا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ نو مئی 2023 اور 26 نومبر 2024 کے واقعات کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے۔ماضی میں پی ٹی آئی کا اصرار رہا ہے کہ وہ صرف ‘بااختیار’ حلقوں سے مذاکرات کرے گی لیکن اس کمیٹی کی تشکیل کے بعد عمران خان نے اسے کسی سے بھی مذاکرات کرنے کا اختیار دیا تھا۔سو برسرِ زمین کسی نام نہاد ‘عدم استحکام’ کے منحوس سایے کا شائبہ تک بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ ریاستی نظم، تمام آئ ینی ادارے اور معمولاتِ حیات مربوط انداز میں چل رہے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ بیانیہ تراشی اور ذہن سازی کے ہْنر میں طاق قبیلے نے تخیلاتی ‘سیاسی عدم استحکام’ کو سکّہ رائج الوقت بنا دیا ہے۔ اِس ‘عدم استحکام’ کی روحِ تخلیق صرف یہ ہے کہ ایک جماعت خارج از اقتدار ہے، مشکل میں ہے اور اِس صورتِ حال سے نکلنے کے لئے آتشِ زیرپا ہے۔ اسے وہ ”سیاسی عدمِ استحکام” کا نام دیتی ہے۔ اِس کے نزدیک ‘سیاسی استحکام’ کا نسخہ کیمیا یہ ہے کہ اس کے مطالبات مان کر اْس کی مشکلات کا ازالہ کر دیا جائے۔ 2013 سے 2018 تک بھی ایسے ”سیاسی عدم استحکام” دیواروں سے سر پھوڑتے رہے اور پاکستان پوری آب و تاب سے آگے بڑھتا رہا۔ اَب کے بھی، کم ازکم کم گزشتہ نو ماہ کی تاریخ یہی بتاتی ہے۔دونوں فریقوں کو چاہئے کہ وہ انفرادی کی بجائے عوام کی بہتری کیلئے سوچیں ، لوگ اس وقت مہنگائی کے ہاتھوں خودکشیوں پر مجبور ہیں ، حکمرانوں کو چاہئے کہ پاکستانی عوام کی بہتری کے لیے سوچیں ۔
٭٭٭