مولانا فضل الرحمن کا پہلے دن سے اصرار تھا کہ عمران خان پاکستان کی سیاست کو اس مقام پر لے کر آئے گا جہاں سے واپسی ناممکن ہو جائے گی، یہ بات بھی آن ریکارڈ ہے کہ مولانا فضل الرحمن پاکستان تحریک انصاف کو انتخابات 2014 کے بعد خیبر پختونخوا میں حکومت نہ بنانے دینے کے حق میں تھے، مگر اس وقت مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں نواز شریف نے میثاق جمہوریت میں پاکستان تحریک انصاف کے فریق نہ ہونے کے باوجود اس پر عمل کرنا ناگزیر سمجھا اور خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے سبب، میاں نواز شریف نے پاکستان تحریک انصاف کو صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کا حقدار سمجھا۔ یوں پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے مل کر خیبر پختونخوا کے صوبائی حکومت بنائی، یہ وہ مقام تھا جہاں پر میاں نواز شریف نے میثاق جمہوریت پر عمل کرنا ضروری سمجھا اور وقت نے مولانا فضل الرحمن کے تجربے کو بھی سیاسی طور پر درست قرار دیا۔
پاکستان میں آج سیاسی ماحول کی صورتحال یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے دست و گریباں ہیں، الزامات کے کیسی جنگ شروع ہو چکی ہے جو حقیقت کے قریب تر بھی نہیں، ان الزامات کے بوجھ کے نیچے حقیقت اتنی دم چکی ہے کہ شاید آنے والے کتنے سال ہی اس کو باہر آنے میں مدد نہ کر سکیں۔
دوسری جانب اب اتحادیوں کی حکومت کی جانب سے جو ردعمل پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے سلسلے میں دیا جا رہا ہے لگتا ہے کہ یہ مولانا فضل الرحمن کا وہی فلسفہ ہے جس کو اب وقت کی ضرورت سمجھتے ہوئے اپنایا گیا ہے اور پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کو ہر صورت کچلنے کا حکومتی ٹولہ ارادہ رکھتا ہے۔ اگرچہ یہ کالم چھپنے تک پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ ہونے یا کسی بھی صورت پاکستان تحریک انصاف کے جلسے جلوس اپنے ظاہری شکل و صورت میں سامنے آ چکے ہوں گے، مگر درحقیقت اب یہ یہ حقیقت تسلیم کرنا بڑا تلخ ہے کہ پاکستان کا سیاسی ماحول آنے والے کئی سالوں کے لئے اس قدر گندہ ہو چکا ہے کہ اس میں عوام کا کوئی فائدہ ہوتا ہوا نظر نہیں آتا، جب عوام کا کسی صورت فائدہ نہیں ہونا تو پاکستان کے سیاسی برادری کو اس وقت سے ڈرنا چاہئے جب لوگوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں رہے گی کہ ان پر حکمران سیاسی لوگ ہیں یا کوئی فوجی جرنیل ہے۔
٭٭٭