”ن” لیگ نے18ویں تریم کو متنازعہ قرار دیدیا! !!

0
14
پیر مکرم الحق

ابھی میاں نوازشریف کا اپنا مستقبل(سیاسی) مشکوک ہے اور ”ن ” لیگ نے18ویں ترمیم کو ہدف تنقید بنا کر چھوٹے صوبوں کو فکر مند کردیا ہے کیا پھر ایک بار میاں صاحبان نے ”جاگ پنجابی جاگ” کا نعرہ لگانے کی ٹھان لی ہے۔ سیاست میں اتنی کوتاہی کوئی نیا سیاستدان کرے تو سمجھ آتی ہے۔ میاں نواز شریف کو چالیس برس سے زیادہ سیاست کرتے ہوئے گزرے ہیں ایسے تجربہ کار سیاست دان اسی بڑی غلطی کرے سمجھ سے باہر ہے لگتا ہے جو لوگ کل تک عمران خان کو سیاسی مشورے دے رہے تھے وہ اب میں نوازشریف کے گرد اکٹھے ہوگئے ہیں۔ تجزیہ یہ ہے کہ پنجاب میں انتخابات میں میاں صاحبان کا پلڑہ بھاری کرنے کیلئے ان پر مہر بانی کی جارہی ہے کیونکہ طاقتور حلقہ میاں صاحب کو چھوٹے صوبوں سے دور رکھنا چاہتا ہے تاکہ انکی حکومت فقطہ پنجاب تک محدود ہو۔ چار پارٹیوں کی مخلوط حکومت تاش کے پتوں سے بنا ہوا گھر ہوتا ہے جب چاہا ایک پھونک سے ڈھایا جاسکتا ہے۔ تازہ ایک جھگڑے سے گزر کر وہ طاقتیں کبھی نہیں چاہیں گی کہ کوئی مضبوط حکومت بن جائے اسلئے میاں صاحب کو کمزوری کی چاٹ کھلائی جارہی ہے لیکن انہیں اندازہ ہو جانا چاہئے کہ اسی باتوں سے وفاق کمزور ہوگا اب ایک اٹھارویں ترمیم یہی ہے جو چھوٹے صوبوں کیلئے جھوٹی ،سچی اُمید بنی ہوئی ہے، اس سے چھیڑ چھاڑ ملک کے لئے خطرناک ثابت ہوگا۔ بلوچ بھائی نہایت برہم ہیں، پٹھان بھی زیادہ خوش نہیں باقی سندھ تو وفاق کے علاوہ اپنی پارٹی سے بھی کوئی زیادہ خوش نہیں۔ سندھ میں مسلم لیگ ن کے بے جان جسم میں جو بشیر میمن نے تھوڑی سی جان ڈالنے کی کوشش کی تھی میاں صاحبان نے18ویں ترمیم کو آگے لے جانے کی بات کرکے میمن صاحب کے لئے دھرے پر پانی ڈال دیا ،ویسے بھی مسلم لیگ”ن” کا ریکارڈ اپنے سندھ چیپٹر کے عہدیداروں کی معاملے میں اچھا نہیں ابھی لوگ سائیں غوث علی شاہ کے ساتھ پیش آنے والے المیہ کو بھولے نہیں ہیں۔ کہتے ہیں کہ اپنا مارتا ہے تو سائے میں لے جاکر یہاں پر تو ”ن” لیگ کا ریکارڈ ہے کہ اپنا جس نے جیل کی چکیوں میں رہ کر بھی وفاداریاں بدلنی نہیں انہیں ایسا نظر انداز کیا کہ کوئی سوتیلے بھائی کے ساتھ بھی ایسا نہیں کرتا۔ جب سے میاں صاحب واپس پاکستان آئے ہیں مریم نواز کی مقبولیت کو بجائے چار چاند لگنے کے لگتا ہے چاند گرہن لگ گیا ہے۔ دنیا بھر میں ایک ہوا تو چلتی ہوئے ہے جس کی لپیٹ میں صدر بائیڈین کا دامن بھی جھلس رہا ہے اب تو امریکی قبل انتخابات سروے میں تقریباً ساٹھ فیصد کا خیال ہے کہ صدر بائیڈین سیاسی برس کی عمر میں اگر دوبارہ صدارتی حلف اٹھائیں گے تو امریکہ کے صدارت کی بھاری ذمہ داری اٹھانا ان کے بس میں نہیں رہے گا۔ اب نوجوان نسل کو موقعہ ملنا چاہئے حالانکہ صدربائیڈین نے ٹرمپ کے مقابلے میں کئی گنا بہتر حکمرانی کی ہے وہ کام ہوئے جو صدر اوباما نہیں کر پائے ظاہر ہے کہ اسی برس کے آدمی کا ساٹھ سالہ آدمی سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا لیکن حکمرانی اور کشتی میں فرق ہے ہوتا ہے کہ حکمرانی میں دماغ کا عمل دخل زیادہ ہے کشتی میں زور بازو اور جسمانی طاقت کاعمل دخل ہوتا ہے ادھر ڈونلڈ ٹرمپ پر کئی درجن مقدمات قائم ہوچکے ہیں وہ اس دوڑ میں عمران خان سے بازی لے گئے ہیں لیکن امریکی قوانین کے مطابق وہ جیل میں رہ کر بھی انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اور اگر منتخب ہوگئے تو امریکہ کو جیل میں بیٹھ کر چلا سکیں گے البتہ پاکستان میں یہ کچھ ہوتا نہیں نظر آتا۔ پاکستان میں سیاست میں الجھائو بڑھتا جارہا ہے شاید کسی وقت یہ اعلان نہ ہوجائے کہ پاکستان میں جمہوریت نہیں چل سکتی البتہ آئندہ جرنل چین جائینگے اور وہ ہی حکومت چلائیں گے۔ جنرل ایوب خان اپنی قبر میں مسکرا رہے ہونگے اور زیر لب بڑبڑا رہے ہیں کہ ”میں نے کہتا تھا!” پاکستان کیلئے ایٹمی طاقت ایک بوجھ بنتی جارہی ہے کیونکہ پاکستان واحد مسلم ملک ہے جو ایٹمی قوت کا حاصل ہے اسلئے یہاں پر حکومت بھی ایٹمی قوت کا حامل ہے اسلئے یہاں پر حکومت بھی مغربی ممالک کی منظوری سے ہوگی۔ سیاستدان جب تک حکومت سے باہر ہوتے ہیں وہ سب کی جمی حضوری کرتے ہیں۔ لیکنی یہی سیاستدان جب اقتدار میں دو چار سال گزار لیتے ہیں تو پھر وہ اپنے کو سچ مچ کا حکمران سمجھنے لگتے ہیں۔ اور آپے سے باہر آجاتے ہیں پتہ بھی ہوتا ہے کہ اصل تے وڈے حکمران پیچھے بیٹھے محظوظ ہو رہے ہیں۔ جیسے فلم ڈائریکٹر اپنے کرداروں کو ادا کرتے ہوئے اداکاروں کی اداکاری دیکھ کر خوش ہوتے ہیں لیکن جب کوئی اداکار اور ایکٹنگ کرنا شروع کردے تو پھر اسے ڈانٹ کر سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں اگر پھر بھی کوئی اداکار نے مانے تو اسے فلم سے نکال ہی دیتے ہیں۔ اور پھر بھی کوئی شور مچائے تو ایکسٹرا ایکٹرز کے ویٹنگ روم میں بند کردیا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ سارے اداکار ملکر ایک اچھی سی فلم بنا ڈالیں لیکن بدقسمتی یہی ہے کہ ہدایتکاروں نے اداکاروں میں اپنے کارندے چھوڑے ہوئے ہیں وہ فوراً ”آکر ہدایت کار کو اطلاع پہنچا دیتے ہیں کہ ”جی! اوتے سارے رہ گئے ہن تے تاڈی خیر نہیں!” پاکستان جسے کتنی قربانیوں اور جدوجہد کے ذریعے حاصل کیا گیا تھا وہ اقبال کا خواب اب ایک ڈرائونے خواب کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ چوبیس کروڑ انسانوں کو تجرباتی چوہوں کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے، دن بدن حالات کو خود سے بگاڑا جارہا ہے پھر سنوارنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن آخر کب تک یہ کھیل جاری رہیگا؟ یا رہ سکتا ہے؟ یہ کوئی بھی نہیں جانتا؟!!!!۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here