ایسی چنگاری بھی یا رب،اپنی خاکستر میں تھی!!!

0
49

آرگنائیزیشن آف اسلامک کوآپریشن (OIC) کا نامِ نامی تو آپ نے سن رکھا ہوگا۔ اس کا قیام تو فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کو تیز تر کرنے کیلئے عمل میں لایا گیا تھا لیکن بدقسمتی سے یہ تنظیم لفاظی کی حد سے کبھی باہر نہ نکل سکی۔ اس تنظیم کی دوسری سربراہ کانفرنس میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے بھرپور قیادت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، ورلڈ آرڈر کو چیلنج کیا تھا۔ تیل کی دھار کو تلوار کی طرح استعمال کی بات ہوئی لیکن استعماری قوتوں نے آزاد آوازوں کو فوری طور پر کچل دیا۔ ایک طویل عرصے تک، OIC کی کانفرنسوں میں زبانی جمع خرچ ہوتا رہا اور بالآخر سعودی عرب میں ہونے والی چودھویں سربراہ کانفرنس میں عمران خان صاحب نے معمول سے ہٹ کر ایک تقریر کی اور اپنے ساتھی سربراہوں کو آزمائش میں ڈال دیا۔ خان صاحب کا کہنا یہ تھا کہ استعماری قوتوں کے سامنے اسلام کا موقف معذرت اندازانہ طریقے سے پیش کرنے کی بجائے، برابری کی سطح پر بات کی جائے کہ ہمارے دین کو ٹیررازم کے ساتھ ملانے کی بجائے پوری دنیا میں پھیلے ہوئے اسلامو فوبیا کا تدارک کیا جائے۔
عمران خان کی یہ تقریر میں براہِ راست دیکھ رہا تھا اور مجھے اس کانفرنس کے شرکا کی بے چینی صاف نظر آرہی تھی۔ بعد میں کچھ ذرائع سے یہ پتہ چلا کہ کانفرنس کے کئی شرکا نے خان صاحب کو متنبہ بھی کیا کہ آپکی یہ تقریر آئندہ کچھ عرصے میں آپ کیلئے مسائل کا باعث بنے گی۔ اسلامی سربراہ کانفرنس میں سینکڑوں قراردادیں پاس کی جاتی ہیں۔ فائنل کمیونکے کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ پہلے پچاس ساٹھ نقاط تو فلسطین کے بارے میں ہوتے ہیں، جو اکثر پچھلے ڈاکومنٹس سے کٹ اینڈ پیسٹ کر لئے جاتے ہیں۔ پھر اس کے بعد افریقہ کے ممالک، کشمیر اور دیگر مسائل کا نمبر آتا ہے۔ نائن الیون کے بعد بیس پچیس نقاط ٹیررازم کی مذمت کے بھی ہوتے ہیں۔ وہ بھی پچھلے بیس سالوں سے کٹ اینڈ پیسٹ ہورہے ہیں۔ بہرحال، خان صاحب کی تقریر کے بعد پہلی مرتبہ اسلامو فوبیا کا ایک پوائنٹ بھی اس طویل ڈاکومنٹ میں شامل کیا گیا۔ اس کو شامل کرنے کیلئے نیوزی لینڈ میں ہونے والے واقعے کے ریفرنس سے اقوام متحدہ سے اپیل کی گئی کہ اسلامو فوبیا کے خلاف قرارداد پاس کرے۔
اتفاق سے اسی کے سال کے اوآخر میں خان صاحب نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک تاریخی تقریر کر ڈالی۔ انکی اس معرک الآرا تقریر کا پوری دنیا پر بڑا گہرا اثر ہوا۔ اسلامی شعائر کا مذاق اور خاص طور پر نبی کریم صلی اللہ و علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنے کے عمل کو مسلمانوں کیلئے ناقابلِ برداشت قرار دیتے ہوئے اسلامو فوبیا کے تدارک کیلئے اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا۔ پاکستان کی کامیاب ڈپلومیسی کی بدولت، اقوام متحدہ نے پندرہ مارچ کے دن کو اسلامو فوبیا کے تدارک کا سالانہ دن قرار دیا اور او آئی سی کی جانب سے یہ قرارداد، پاکستانی مندوب کو پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔
اپنے مختصر دورِ حکومت میں، عالمی کرپشن کو روکنے کیلئے بھی عمران خان صاحب نے ایک توانا آواز اٹھائی۔ ان کے بقول، غریب ممالک سے ڈالروں کی امیر ممالک کی طرف منتقلی، ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جو غریب کو غریب تر کرتا چلا جا رہا ہے۔ اسی طرح ماحولیات کے حوالے سے بھی انہوں نے دنیا کے بڑے صنعتی ممالک پر خاصی تنقید جاری رکھی۔ اسی قسم کی غیر روایتی باتیں کرکے، پہلے تو خان صاحب نے اپنی حکومت گنوائی اور اب پچھلے کئی مہینوں سے پابند سلاسل بھی ہیں، انکی زندگی ختم کرنے کی بھی متعدد کوششیں ہو چکی ہیں لیکن اس سب کے باوجود وہ اپنے موقف سے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں ہورہے۔ پاکستانی عوام میں انکی مقبولیت مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اسلامو فوبیا کے تدارک کا دن مناتے ہوئے اکثر لوگ خان صاحب کے شکرگزار ہونے کا اظہار کر تے ہیں کیونکہ وہ اس سلسلے میں انہیں اپنا محسن سمجھتے ہیں۔
پاکستان کی اندرونی سیاست میں تو خان صاحب کی پارٹی، پی ٹی آئی کے ساتھ بڑی حد تک اختلاف کی گنجائش موجود ہے، لیکن عالمی سطح پر مسلمان اقلیتوں کیلئے جو توانا آواز انہوں نے اٹھائی وہ دوسرے لیڈر کبھی نہ کرسکے۔ ان کے یہ الفاظ کہ نبی اکرم صلی اللہ و علیہ وسلم کی محبت مسلمانوں کے دلوں میں اس طرح موجود ہے جو توہینِ رسالت برداشت نہیں کرنے دیتی، نے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ اسلام کو نفرتوں کی بجائے محبتوں کا مذہب ثابت کیا اور سیرتِ رسول(ص)پر تحقیق اور اس کی ترویج کیلئے ادارے قائم کیے۔اسلامو فوبیا کے تدارک کے عالمی دن کے موقع پر میں عمران خان کی خدمات کا ذکر اس لئے کر رہا ہوں کیونکہ اس کے زیرِ عتاب ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہی اقدامات ہیں جو عالمی استعمار کیلئے ایک بڑا چیلنج ثابت ہورہے ہیں۔ خان صاحب نے تو شاید اپنی زندگی میں وہ سب کچھ کردیا جو وہ کرنا چاہتے تھے لیکن گیند اب آئندہ نسلوں کے کورٹ میں ہے کہ وہ اس مشن کو کیسے آگے بڑھاتے ہیں۔
حبیب جالب صاحب بھی صورتحال پر خوب نظر رکھتے تھے:
وطن کو کچھ نہیں خطرہ نظام زر ہے خطرے میں
حقیقت میں جو رہزن ہے وہی رہبر ہے خطرے میں
جو بیٹھا ہے صف ماتم بچھائے مرگ ظلمت پر
وہ نوحہ گر ہے خطرے میں وہ دانشور ہے خطرے میں
اگر تشویش لاحق ہے تو سلطانوں کو لاحق ہے
نہ تیرا گھر ہے خطرے میں نہ میرا گھر ہے خطرے میں
جہاں اقبال بھی نذر خط تنسیخ ہو جالب
وہاں تجھ کو شکایت ہے ترا جوہر ہے خطرے میں
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here