قرآن کی کتابت کی مختصر تاریخ: قرآن کی کتابت اس کے اوائل میں ہی شروع ہو گئی تھی، پہلی وحی کی کتابت سے لے کر اگلی تقریبا بارہ صدیوں تک قرآن ہاتھ سے لکھا جاتا رہا۔ پہلے قرآن چمڑے کے کاغذ پر لکھا جاتا تھا۔کیونکہ کاغذ عرب میں ایک نایاب چیز تھی۔ پہلی اور دوسری صدی ہجری کے جتنے بھی قرآن مختلف میوزیمز یا عجائب گھروں میں محفوظ ہیں وہ سب ویلم یا چمڑے کے کاغذ پر لکھے ہوئے ہیں اور کافی بھاری بھرکم ہیں۔ قرآن کے یہ سب مخطوطے چرمی کاغذ پر لکھے گئے ہیں اور ان میں استعمال ہونے والی سیاہی کا معیار بھی بہت اعلیٰ نہیں ہے مگر دوسری سے تیسری صدی ہجری میں قرآن کو کاغذ پر لکھنے کا رواج شروع ہوا۔ (کیونکہ عربوں نے چین سے کاغذ بنانے کا فن سیکھ لیا تھا) ۔ کاغذ کے استعمال کی وجہ سے قرآنی کتابت میں کئی جدتیں آئیں۔ اس سے پہلے لکھے جانے والے قرآن بڑے سادہ ہوتے تھے مگر اس دور میں قرآن کی کتابت میں اچھی سیاہی کے ساتھ ساتھ سونے اور چاندی کا استعمال شروع ہوا۔ عموما ہر سور ہ کے شروع میں خوبصورت حاشیہ لگا کر اور نقش و نگار بنا کر سورہ کا نام لکھا جاتا تھا اور یہ رواج آج بھی جاری ہے۔ اس دور میں عموما اس میں سونے اور چاندی کا استعمال ہوتا تھا۔ کاتب کو قرآن کی کتابت کرنے سے پہلے کاغذ کو چمکانا پڑتا تھا تاکہ سیاہی کاغذ میں جذب نہ ہو کیونکہ اگر سیاہی کاغذ میں جذب ہو جائے تو وہ پھیل جاتی ہے اور الفاظ کی شکل واضح نہیں رہتی دوسرے کاغذ کے دوسری طرف لکھنا بھی ناممکن ہو جاتا ہے۔ کاغذ کو چمکانے کے لئے چاول کے نشاستے یا ماوا کو چالک chalk کی برابر مقدار کے ساتھ ملا کر کاغذ پر ایک بہت ہی باریک تہ لگائی جاتی تھی۔ پھر اس کاغذ کو ایک لکڑی کے پھٹے یا میز پر رکھ کر ایک خاص پتھر کی مدد سے رگڑ رگڑ کر ہموار کیا جاتا تھا۔ عثمانی ترکوں کے دور میں چاول یا گیہوں کی سٹارچ یا نشاستے کی جگہ انڈے کی سفیدی کا استعمال شروع ہوا۔ انڈے کے سفیدی کو پھٹکری سے ملا کر خوب گھوٹا یا بلویا جاتا تھا۔ اس آمیزش کو بعد میں نتھار کر جھاگ اور صاف پانی نما محلول کو الگ کر لیا جاتا تھا۔ صاف محلول کو آہار بولا جاتا ہے۔ پھر اس انڈے کی آہار کی کاغذ پر ایک بڑی باریک تہہ لگائی جاتی تھی اور پھر اسے لکڑی کے میز پر رکھ کر پتھر سے اس وقت تک رگڑا جاتا تھا جب تک کاغذ کی سطح بلکل ہموار اور ملائم نہ ہو جائے۔ پھر اس کاغذ کو ایک سال یا اس سے زیادہ عرصہ کے لئے کسی محفوظ اور خشک جگہ پر سٹور کر دیا جاتا تھا۔ یہ کاغذ جتنا پرانا ہوتا تھا، اتنا ہی اچھا ہوتا تھا۔ اس عمل کی وجہ سے سیاہی کاغذ میں جذب نہیں ہوتی تھی اور قلم کاغذ کی سطح پر گلائیڈ کرتا چلا جاتا تھا۔ اس زمانے میں قلم نرسل یا سرکنڈے سے بنائے جاتے تھے، اچھے کاتب اپنا قلم سال میں صرف ایک بار بدلتے تھے اور اگر ضرورت ہڑتی تھی تو اسی قلم کو دوبارہ تراش لیتے تھے۔ سلطنت عثمانیہ کے مشہور کاتب حسن رضا نے پورا قرآن ایک ہی قلم سے اس بغیر دوبارہ تراشے لکھا تھا۔ ابھی تک آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ قرآن کی کتابت کتنا مشکل اور وقت طلب کام ہوتا تھا۔ عموما ایک قرآن کو لکھنے میں کئی مہینوں سے لیکر ایک سال تک لگ جاتا تھا پھر جب دنیا میں طباعت کی صنعت کا آغاز ہوا تو تب بھی قرآن کافی عرصہ تک ہاتھ سے لکھا جاتا رہا۔ قرآن کی مشینی طباعت کا آغاز کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ ہم اس منزل تک بڑی مشکل سے پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ آئیں قرآن کی طباعت کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے پہلے ہم طباعت کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں۔
طباعت کی تاریخ: اگرچہ طباعت کی تاریخ کافی قدیم ہے۔ چار سے ساڑھے تین ہزار سال قبل مسیح میں انسان نے سیلنڈر سیلز ( Cylinders Seals) کے ذریعے مٹی کے کتبوں پر طباعت شروع کردی تھی۔ مگر یہ کافی محنت طلب کام تھا اور اس کے لئے کافی وقت بھی درکار ہوتا تھا۔ پہلے مٹی کے کتبے بنائے جاتے تھے اور پھر ان کو بھٹی میں پکایا جاتا تھا۔ دوسرے ان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا اور سٹور کرنا بھی بہت محنت طلب کام تھا۔ مگر انسان ہمیشہ سے بہتر سے بہتر کی جستجو میں رہتا ہے۔ اسی جستجو کی وجہ سے مصریوں نے پییرس -Papyrus (تین سے چار ہزار سال قبل مسیح) اور چینیوں نے کاغذ( دوسری صدی عیسوی) ایجاد کیا۔ کاغذ کی ایجاد نے لکھنے کے عمل کو نسبتا کافی آسان کر دیا کیونکہ کاغذ پر لکھنا اور اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاناں اور سٹور کرنا بہت آسان تھا۔ مگر ان پر انسان کو تحریری ہاتھ سے لکھنی پڑتی تھی۔ جس کے لئے وقت چاہئے ہوتا تھا۔ مگر پھر بھی اس جدت نے کتابوں کی لکھائی پہلے سے آسان کردی اور کئی صدیوں تک کتابیں ہاتھ سے لکھی جاتی رہیں جس کی وجہ سی کتابیں کافی مہنگی ہوتی تھیں اور کمیاب بھی۔ پھر چینیوں نے ساتویں صدی عیسوی میں لکڑی کے ٹکڑوں سے چھاپے بنا کر کاغذ پر چھپائی کرنے کا طریقہ شروع کیا۔ اس طریقہ میں آپ نے جو بھی جو نقش یا لکھائی کاغذ پر منتقل کرنی ہوتی تھی اسے لکڑی کے ٹکڑوں پر الٹا لکھا یا بنایا جاتا تھا تاکہ جب کاغذ پر اسے چھاپا جائے تو وہ سیدھا پڑھا جا سکے۔ اس طریقہ سے دنیا کی پہلی کتاب وجود میں آئی جو کہ بدھ مت کے راہبوں نے چھاپی اور یہ بدھ مت کی مقدس کتاب بدھ سترا یا سوترا تھی۔ اس کتاب کے اوپر درج طباعت کی تاریخ مئی گیارہ، 868 عیسوی بنتی ہے۔ مگر کتابوں کی طباعت کے لئے یہ طریقہ ذیادہ مقبول نہ ہو سکا اور اس کا ستعمال صرف نقش و نگار کی چھائی تک ہی محدود ہو گیا۔ پاکستان اور ہندوستان میں آج بھی کپڑوں پر اسی طریقہ سے مختلف نقش و نگار لکڑی کے چھاپوں سے بنائے جاتے ہیں۔ سندھ کی مشہور اجرک بھی اسی طریقہ سے بنائی جاتی ہے اور اپنی خوبصورتی کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ پھر گیارہویں صدی عیسوی میں چینیوں ہی نے حرکت پزیر مطبعہ (Moveable Type Printing ) ایجاد کی جو کہ طباعت کے شعبہ میں ایک بہت بڑا انقلاب تھا جس نے بعد میں دنیا کی تاریخ بدل دی۔ پھر اسی ایجاد کو بنیاد بنا کر پندر ھویں صدی میں Johanesse Gutenberg نے دھاتی حرکت پذیر مطبعہ Metal Moveable Printing press کی مشین ایجاد کی اور اس سے پہلی بائبل طبع کی جو کہ آج بھی گوٹن برگ بائیبل Gutenberg Bible کے نام سے مشہور ہے۔ انس نئی ایجاد نے یورپ میں انقلاب برپا کر دیا کیونکہ کتابوں کی طباعت آسان ہوگئی۔ پہلے جس ایک کتاب کو ہاتھ سے لکھنے میں مہینوں لگتے تھے اب اس کی بہت سی کاپیاں تھوڑے وقت میں طبع ہو کر بازار میں لائی جا سکتی تھیں۔ اس عمل کی وجہ سے کتابیں سستی اور عام ہو گئیں۔ اس جدت نے علم کے دروازے عوام کے لئے آسان کر دئیے۔ اس طریقے سے کتابیں عام آدمی کی دسترس میں آ گئیں۔ ورنہ اس سے پہلے ہاتھ سے لکھی کتابیں صرف امیر لوگوں ہی کی پہنچ میں ہوتی تھیں۔ یوں کتابوں کی سستی اور آسان چھپائی نے کتابیں سستی کردیں اور عام آدمی کے لئیے بھی انہیں خریدنا آسان ہو گیا۔ اسی نے یورپ میں نشا ثانیہ کا آغاز کیا اورعلم کے دروازے سب کے لئے کھل گئے نتیجہ یہ نکلا کہ یورپ نے اپنے علم اور عمل سے پوری دنیا پر اپنی دھاک بٹھا لی جو آج تک جاری ہے۔ یورپ میں 1450 عیسوی میں پہلی بائیبل کی طباعت نے کتابوں کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ (اس بائیبل کی دنیا میں آج صرف 49 کاپیاں مختلف عجائب گھروں اور نوادرات کے شوقینوں کے پاس محفوظ ہیں۔) اگرچہ یورپ میں بھی شروع میں پرنٹنگ پریس کی مخالفت ہوئی اور اس کے ذریعے بائیبل کی پرنٹنگ کو ایک بدعت خیال کیا گیا۔ مگر جب پوپ پائیس ثانی ( Pope Pius II) نے گوٹن برگ بائیبل کی پرنٹنگ کو اس کا جائزہ لے کر جائز قرار دے دیا تو یہ مخالفت جلد دم توڑ گئی۔ جب یورپ میں طباعت ایک انقلاب برپا کر رہی تھی اور ایک نئے دور کا سورج طلوع ہو رہا تھا تو مسلم دنیا نے اس ایجاد کی مخالفت کا بیڑا اٹھایا۔ 1483 یا 1484 عیسوی میں سلطنت عثمانیہ کے خلیفہ بایزید ثانی نے ایک قانون کے ذریعہ مطبع خانوں Printing Press کو خلاف اسلام قرار دیتے ہوئے سلطنت کی حدود میں ان پر پابندی عائد کردی اور اس قانون کو توڑنے کی سزا موت مقرر کی گئی۔ اس قانون کی توثیق سلطنت کے مفتی نے بھی کی اور اس کے ذریعہ کتابوں اور قرآن کی طباعت کو حرام قرار دے دیا گیا۔ اس کے جلد بعد جامعہ الازھر نے بھی پرنٹنگ پریس کو خلاف اسلام قرار دے کر اسے حرام قرار دے دیا۔ ان دونوں فتووں کی وجہ سے پورے عالم اسلام میں کسی کو پرنٹنگ پریس لگانے کی جرآت نہ ہوئی۔ تاریخ دان ،اس بات پر کہ جہالت پر مبنی اس فیصلہ کے پیچھے کیا محرکات تھے، آج بھی بحث کرتے ہیں اور مختلف توجیحات پیش کرتے ہیں۔ ایک توجیہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ عربی چونکہ ایک مقدس ذبان ہے اور قرآن بھی اسی زبان میں ناذل ہوا ہے اس لئے علما کا خیال تھا کہ عربی کا تقدس اس بات کا متقاضی ہے کہ اسے احترام کے ساتھ صرف صاف ہاتھوں کے ساتھ صرف پاک اور مطہر اجزا سے لکھا جائے۔ قرآن کی پہلی وحی میں بھی یہ ذکر تھا کہ اللہ نے انسان کو قلم سے لکھنا سکھایا (قرا بِاسمِ ربِک الذِی خلق o خلق الاِنسان مِن علق o اِقرا و ربک الارم o الذِی علم بِالقلمِ o علم الاِنسان ما لم یعلم o) ۔ اس لئے عربی کو صرف ہاتھ سے لکھنا ہی جائز ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور طریقہ کا استعمال ایک حرام امر ہے۔ دوسری توجیہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ عالم ا سلام میں عام خیال یہ تھا کہ پرنٹنگ میں استعمال ہونے والے برش” سور یا خنزیر” کے بالوں سے بنائے جاتے ہیں۔ اس لئے علما نے پرنٹنگ کو حرام قرار دیا۔ کیونکہ ”سور” ایک نجس جانور ہے اور عربی جیسی مقدس زبان اور قرآن جیسی مقدس کتاب کی پرنٹنگ میں استعمال ہونے والے نجس بالوں کے برش کا استعمال ایک ایک حرام امر ہے اور اس سے قرآن لکھنا ایک بڑا گناہ تصور ہوگا۔ ایک توجیہ یہ پیش کی جاتی ہے کی یوروپی زبانوں کی نسبت عربی کے حروف کی املا مختلف ہے۔ عربی کے حروف کی شکل لفظ کے شروع، درمیان اور آخر میں مختلف ہوتی ہے۔ اس لئے اس کا مشین سے لکھنا ایک مشکل امر تھا مگر ہم آگے چل کر دیکھیں گے کہ یورپ نے اس مشکل کو بڑی آسانی سے حل کر لیا۔ اس کے علاوہ ایک توجیہ یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ عالم اسلام میں لاکھوں لوگوں کا روزگار کتابت کے پیشہ سے وابستہ تھا اسلئے ان کاتبوں کو بے روزگار ہونے سے بچانے کے لئے یہ قدم اٹھایا گیا۔ مگر اس توجیہ میں اتنی جان نہیں کیونکہ یورپ میں بھی بہت سے لوگوں خاص کر خانقاہوں کے راہبوں کا ذریعہ آمدن کتابت ہی تھی مگر پرنٹنگ پریس سے وہاں کوئی روزگار کے مسائل نہ کھڑے ہوئے لیکن وجہ کچھ بھی ہو اس غلطی نے عالم اسلام کو ایک ایسی دلدل میں دھکیل دیا کہ وہ ابھی تک اس دلدل سے باہر نہیں نکل سکا اور علمی میدان میں یورپ سے کئی صدیاں پیچھے رہ گیا۔ شائد احمد ندیم قاسمی نے اسی موقع کے لئے کہا تھا کہ:
پل پل میں تاریخ چھپی ہے، گھڑی گھڑی گرداں ہے ندیم۔
ایک صدی کی ہار بنے گی ایک نظر کی بھول یہاں۔
٭٭٭