صدر جوبائیڈین قتل عام میں اسرائیل کیساتھ!! !

0
22
کامل احمر

ابھی ہمارا دھیان، پاکستان میں بدعنوان حکومت کی دھاندلی اور ظلم جو جنرلز کی نگرانی میں ہو رہا ہے نہیں ہٹا تھا کہ ایک نئے فتنے نے پھر سے جنم لے لیا جسے اسرائیل کہتے ہیں اور اس کی پشت تھپ تھپانے کے لئے صدربائیڈین تازہ دم ہو کر میدان میں کود پڑے جن سے پانچ منٹ کی پریس کانفرنس نہیں ہو رہی تھی اور وہ پریس کو جواب دینے کے قابل نہیں تھے، اسرائیل نے نہ جانے کونسان انجکشن لگا دیا کہ وہ اسرائیل پہنچ کر نیتن یاہو کی کارکردگی پر35منٹ بولتے رہے تمام ے تمام سیاست دان جو لابی AIPECکے گھیرے میں ہیں ایک زبان ہو کر صدر بائیڈین کا ساتھ دینے لگے بھول گئے کہ امریکہ اور امریکی عوام کو کیا مسائل درپیش ہیں۔ عوام سے انکی ضروریاتت یا مشکلات پر منہ موڑنے کا سلسلہ صدر ریگن سے شروع ہوا تھا ساتھ ہی امریکہ میں لابیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور دوبارہ جارج بش نے اسرائیل کے اشارے پر نیا ورلڈ آرڈر نیار کیا کہ مسلمان ملکوں کو برباد کیا جائے یہ کام بغداد سے شروع ہوا۔ اور تاریخ کو دہرایا گیا۔ کرلے مونچھوں والا اور پکڑا جائے داڑھی والا۔ اور یہاں نہ مونچھوں والا تھا اور نہ ہی داڑھی والا جو امریکہ کے لئے خطرے کا باعث تھا۔ جنرل یا ویل جو سیکرٹری تھے ایک دن پہلے آکر یہ بتایا کہ گھانا سے خبر آئی ہے کہ صدام حسین کے پاس خطرناک ہتھیار ہیں اور اسکے بعد جو کچھ ہوا سب کو معلوم ہے پھر2001میں انکے صاحبزادے بش نے ابا کے ادھورے کام کو پورا کیا۔ 2001کی ابتداء جنگ سے شروع ہوئی اندھا دھند بمباری کرکے عراق کو زمین بوس کردیا پھر لیبیا، افغانستان اور ایران پر پابندی جیسا کہ گائوں کا پنچ فیصلہ دیتا ہے کہ فلاں کی غلطی ہے لہذا اس کا حقہ پانی بند کیا جائے۔ وہ زمانہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا نہ تھا لہذا فلان کو گائوں چھوڑنا پڑتا تھا ممکن ہے امریکہ بہادر نے یہ سب کچھ انہی سے سیکھا ہو۔ اور یہاں تک آتے آتے امریکی عوام تھک چکے ہیں امریکہ کہیں نہ کہیں جنگ کرتا رہتا ہے یہاں پرانے زمانے کے سگول کا خیال آتا ہے جن کا کوئی ملک نہیں تھا اور تھا تو وسائل نہ تھے لہذا وہ اپنی ضرورت کے تحت دوسرے ملکوں میں جا کر فتنہ فساد مچاتے تھے شہر تباہ کرتے تھے لائبریریاں جلاتے تھے۔ بغداد میں جو اس وقت ایک ترقی یافتہ شہر تھا جاکر تباہی مچائی تھی۔ 1994میں سائوتھ افریقہ نے20فیصد گوروں نے جن کی حکومت تھی منڈیلا کو تیس سال جیل میں رکھنے کے بعد رہا کردیا اور اسے حکومت میں شامل کرلیا جس کے نتیجے میں وہ صدر بنے منڈیلا نے افریقن کو امن اور سلامتی کا پیغام دیا کہ وہاں کسی قسم کا فساد یا گوروں کے خلاف نفرت نے جنم لیا اور نتیجہ میں نسلی عصیبت کا مارا سائوتھ افریقہ نارمل ہوگیا وہاں کے گورے اتنے متعصب تھے کہ کرکٹ ٹیم کسی تھرڈ ورلڈ ملک سے میچ کھیلنا پسند نہیں کرتی تھی لیکن آج ایسا کچھ نہیں۔
اگر ہم افریقہ کےAPARTHED(نسلی عصیبت) کو اسرائیل سے ملائیں جس کے لئے اسرائیل کو مورد الزام ٹہرایا جارہا ہے۔ وہ نسلی عصیبت نہیں فلسطین کی زمین کو قابو کرنے کی کوشش ہے اور اسرائیل اس مقصد میں امریکہ کی مدد سے کامیاب ہوچکا ہے کہ یہ دوسری بار بلکہ آخری بار اندھا دھند بمباری کرکے غازہ اور ویسٹ بنک پر قبضہ کر لے گا۔ اس کا کہنا ہے کہ ہم حماس کو ختم کرکے فلسطینیوں کو حفاظت فراہم کرینگے۔ جیسا کہ وہ کرتا رہا ہے انسانی حقوق کی نافرمانی اور پوری دنیا یہ تماشہ دیکھ رہی ہے اب وہ امریکہ کی بھی نہیں سن رہا ہے۔ آئرلینڈ کی مخالف جماعت کی صدر میری لومیکڈانلڈ نےSINFEIN(سب سے بڑی رپیبلکن پارٹی) کی طرف سے اسرائیل کو سخت الفاظ میں کہا ہے۔”کہاں ہے بچوں کی حفاظت کا بین الاقوامی قانون چوغازہ میں جانیں دے چکے ہیں اور انکی مائیں انکے مردہ مرد جسم کو چمٹائے اور رہی ہیں۔ اسرائیل کو اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ فلسطینیوں پر ظلم اور بربریت کرے اسرائیل غازہ کی جانی اور مالی تباہی کا ذمہ دار ہے۔”
ہمارا ایسا کہنا ہے کہ جانی نقصان تو شاید خدا بھی پورا نہ کرسکے گا کہ اللہ کی مرضی شامل ہے کہ اسکے حکم کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا۔ لیکن مسلمان ملکوں عیاش بادشاہوں کی غفلت اور انکے آگے جھکنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا ہے اور جس انداز سے اسرائیل حماس کا بہانہ کرکے فلسطینیوں کو مار رہا ہے اس کی لغو باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ بار بار کہہ رہا ہے حماس نے8اکتوبر کو اسرائیل میں گھس کر1400سو اسرائیلیوں کو مارا ہے بے بنیاد ہے۔ ابھی تک وہ حماس کی کوئی دہشت گردی دکھانے میں ناکام رہا ہے۔ اور جو ایک تصویر سوشل میڈیا پر دیکھی وہاں ایسا کچھ نہیں دیکھا کہ کہہ سکین حماس نے خون خرابہ کیا ہے اور ہم اسرائیل سے ہمدردی کرسکیں۔ نتن یاہو ہمیشہ سے جھوٹ بولتا را ہے بقول صدر جمی کارٹر کے کہ اسرائیل(نتن یاہو) نے ہمیشہ معاہدہ کی خلاف ورزی کی ہے اور اس کی کسی بات پر یقین نہیں کیا جاسکتا اور امریکہ کے سیاست داں اور میڈیا جو شور مچا رہا ہے کہ لوگ یہودیوں کیخلاف ہیں کوئی بولتا ہے ظلم اور بربریت کے خلاف اس چھاپ لگا دیا جاتی ہے یہود دشمنی کی۔
پچھلے دنوں اکتوبر کے آخر میں ہارورڈ یونیورسٹی کے طلباء نے کلاسوں کے باہر لان میں لیٹ کر فلسطینیوں کی حمایت میں احتجاج کیا۔ وہاں ایک یہودی طالبعلم کیمرے سے فرداً فرداً تصویر بنا رہا تھا اسے روکا تو شور شرابا ہوا۔ اور میڈیا نے خبر دی امریکہ میں یہود دشمنی(ANTI-SEMITISM) کو فروغ دیا جارہا ہے جو سراسر غلط ہے۔ امریکی عوام اپنی پریشانیوں میں مبتلا ہیں اور میڈیا بے پر کی اڑا رہا ہے اسرائیل کے ساتھ لغو بیانی کی اس مہم میں آگے آگے ہے۔ اور اگر یہ بات امریکی ذہنوں میں ڈال رہا ہے تو ذمہ دار یہاں کا جھوٹا یک طرف میڈیا ہے جو پاکستانی میڈیا سے بھی بدتر ہوچکا ہے۔
صدر اوبامہ کا یہ بیان قابل غوروفکر ہے ”امریکہ نے جو غلطی9/11کے بعد کی تھی افغانستان میں بدلہ لینے کے لئے گھس کر اسرائیل غازہ کو ختم کرنے کی کوشش نہ کرے۔”لیکن اسرائیل سنے گا نہیں طاقت(جو امریکہ کی مرہون منت ہے) کا ناجائز استعمال کرکے وہ تباہی کے بعد امریکہ کی طرحSORRYبھی نہیں کہے گا۔ کہ نتن یاہو کو خون منہ لگ گیا ہے۔ یہ جنگ نہیں ہے جنگ دو ملکوں کے درمیان ہوتی ہے جو ہتھیاروں سے لیس ہوں۔ اور یہاں وہ حماس کا نام لے کر غازہ کی زمین پر پوری طرح قبضہ کر چکا ہے۔ دنیا کے ہر ملک سے اور خود امریکہ میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ گھروں سے نکل کر احتجاجی شکل میں اسرائیل اور نتن یاہو کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ کئی ملکوں میں یہودی کمپنیوں کی بنائی اشیاء کا بائیکاٹ ہوچکا ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے امریکہ کے سیاستدانوں کو جگانے اور انسانی حقوق کی پیروی کرانے کے لئے کہ خود امریکہ نے شام پر بمباری کی ہے۔ بیانیہ یہ ہے کہ وہ جگہ ایرانی دہشت گرد تھے اور یوکرین کو جنگ میں پھنسا کر ہتھیار بنانے والی فیکٹریوں کو موقع دے رہا ہے کہ مال بنائو ہم جنگ کرتے رہینگے!!!۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here