کیا عوام بے وقوف ہیں؟

0
50

پاکستان میں سیاسی گہما گہمی عروج پر ہے، ماضی کی دوست سیاسی جماعتیں ایک مربتہ پھر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا آ گئی ہیں ، ماضی کے حلیف آج حریف بن گئے ہیں ، سیاسی سرگرمیاں تو ہر الیکشن پر جاری و ساری رہتی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ گزشتہ دس سے بیس سالوں کے دوران اسٹیبلشمنٹ جو ہم پر حکمران نازل کر رہی ہیںان کے چہروں کو کب تبدیل کیا جائے گا، اگر حکمران ٹولہ گزشتہ 30سالوں سے ملک کو ترقی کی راہ پر گامز ن نہیں کر سکا ہے تو موجودہ دور میں کیسے کرے گا، اب فیصلہ عوام کو کرنا ہے کہ آیا کہ وہ بار بار آزمائے ہوئے چہروں کو ہی ووٹ دیتے رہیں گے یا پھر نئے چہروں کو لاکر ملک کی تقدیر بدلنے کی کوشش کریں گے۔
دنیا داری کے تناظر اور انسانی فرائض و ذمہ داریوں کے حوالے سے ”جان کی امان پاتے” ملکی تقدیر اور مستقبل کے فیصلہ سازوں سے عرض ہے کہ وہ عوامی اعتماد کو یقین اور ملکی استحکام اور مطلوب ترقی جاریہ (SUSTAINABLE DEVELOPMENT) کے تعلق، رشتے پر غور فرمائیں۔ پاکستان کو مہلک بیماریوں میں مبتلا کرنے والے بار بار کے عطائیوں سے بچانا اور آئین و علم کے سہارے کی ضرورت ہے۔ اس طرف توجہ اور نشاندہی کی ضرورت یوں پیش آئی کہ ہمارے اصلی اور بڑے فیصلہ سازوں کے ترقی اور عوامی خدمت کے جذبے اور عوام کے درمیان قومی سطح کی بداعتمادی اور ایک کے بعد دوسری اور اس کے بعد تیسری غیر یقینی کی کیفیت کا مہلک سلسلہ چل نکلا ہے جو نہ صرف جاری سیاسی و معاشی اور بنیادی طور پر آئینی بحران کے جمود بلکہ اس میں اضافے اور مزید پیچیدگی کا باعث بن رہا ہے۔ ستم یہ ہے کہ ایسا تب ہو رہا ہے جب ترقی و استحکام اور ہمارا علاقے اور عالمی برادری میں ایک واضح بنتا ہر طور مثبت کردار پاکستان کی دہلیز پر دستک دے رہا تھا، ہم تو مایوس اور سراپا سوال ہیں ہی ہمارے اپنے خیر خواہ دوست اور مشترکہ مفادات کے حامل ممالک بھی ہمارے داخلی بکھیڑینمٹنے کا انتظار کرتے کرتے اب مایوس ہو چکے ہیں۔ انہوں نے سردست تو پاکستان مائنس کرتے مشترکہ مفادات کو سانجھی کوششوں سے حاصل کرنے کا سفارتی سلسلہ محدود کر دیا ہے۔ آئیں غور فرمائیں! ” جس طرح عقل سلیم، ابلاغ اور امتیازی جسمانی ساخت، انسان کو عطا کئے رب جلیل کے ارفع اشراف ہیں ان ہی کے بہترین سے بہترین استعمال سے انسان کی انفرادی حقیقی کامیابیوں اور اقوام کی ترقی جاریہ کا عمل جڑا ہوا ہے۔ انسانی معاشرے میں شر (جو منجانب اللہ برائے امتحان خیر کے مقابل آپشن ہے) کی قوتیں کل انسانی معاشرے میں زیادہ سے زیادہ ترقی و امن و استحکام کو بھی اپنے گھرانوں اور گروہوں کے لئے وقف کرنے کے خناس میں ابتدائے زمانہ سے مبتلا ہیں، اور عوام و اقوام کی مہلک بیماریوں کاسبب بنتی رہی ہیں۔ ان سے بچنے اور اٹھنے پر دبانے کی ترجیحی عقل سلیم کے ساتھ ساتھ سداسے جڑا ابلاغ ہے۔
آج وطن عزیز کے حالات حاضرہ کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان پرمسلسل غیر یقینی اور بداعتمادی کی دبیز چادر تنی ہوئی ہے جو اسموگ سے بھی زیادہ پرخطر ہے اور الارمنگ ہے۔ ایسی صورتحال نے عوام الناس کے اذہان میں ملک کے آئینی پٹری سے اترنے پر کتنے ہی سوال پیدا کر دیئے ہیں۔ یوں پوری قوم گزشتہ دو اڑھائی سال سے سراپا سوال بن گئی ہے۔ ان ہی سوالات کی تخلیق اور عوامی سوال بن جانے سے ملک کے سنبھلے رہنے، بحال ہونے اورعدم استحکام سے نکلتے ترقی کی راہ پر آنے کی امیدیں سخت مایوس اور نامساعد حالات میں بھی جوان ہیں۔ بمطابق دستور دو صوبائی اسمبلیوں کے تحلیل ہونے کے بعد آئینی عمل کے مطابق ان کے انتخابات کیوں نہیں؟ پھر اس پر عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کیوں نہیں؟ نہیں ہوا تو گھمبیر اقتصادی بحران میں 85 رکنی کابینہ کے سربراہ وزیر اعظم نے سارا ملبہ الیکشن کمشنر کے اختیار پر ڈال کر خود الیکشن سے کیوں فرار کیا؟ وزارتوں نے اتنی دیدہ دلیری سے انتخابات میں اپنے قانوناً لازم تعاون سے کیسے گریز کیا؟ عدلیہ آئین پر عملدرآمد کے سوال اور اتنے حساس مرحلے پر کیسے تقسیم ہوگئی۔ پی ڈی ایم کی الیکشن سے سخت بیزاری اور ایک بار پھر سپریم کورٹ پر عین دوران سماعت چڑھائی سے عوام کے اذہان میں سوال پر سوال پیدا ہونے کا سلسلہ چل نکلا، قوم سراپا سوال اور جواب کوئی نہیں بلکہ نئے اور مزید چبھتے سوالات پیدا ہونے والے غیر آئینی اقدامات نے فسطائیت کا روپ دھار لیا۔ سوالات پیدا ہوتے رہے، سوال اٹھانے کا ماحول سازگار ہوتا گیا۔ اور نگرانی (غیر آئینی ہوگئی) حکومتوں کے قیام کے بعد عوام اور غیر معمولی اختیارات کی حامل نگران حکومتوں اور الیکشن کمیشن کی حد سے تجاوز کرنے والی غیر جانبداری واضح ہوتی گئی۔عوامی سوال، میڈیا میں اٹھے یا نہ اٹھے، رویہ اور تیور سے پتہ چل رہا ہے کہ الیکشن کے حوالے سے خلق خدا کا سوال یا ایک ہی بن رہا ہے کہ ہم پھر عطاروں کے حوالے؟ جن کی آل اولاد اپنا ”جدی حق” حاصل کرنے کیلئے پاگل ہوئے جا رہی ہے لیکن سوالوں نے پورے حکومتی اور سیاسی سیٹ اپ کی چولیں ہلا دی ہیں۔ سمجھ سکو تو سمجھ لو!۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here