لبنان کی برفوں میں ہو روشن کوئی دیپک !!!

0
14

تقریبا سات سال پہلے جب مجھے پہلی مرتبہ لبنان جانے کا اتفاق ہوا تو عمان سے بیروت کی فلائیٹ کے مختصر دورانیے نے بھی خاصا جذباتی کردیا تھا۔ اس بابرکت سرزمین کو، قدیم بلادِ شام کے علاقوں میں ہمیشہ ایک اہم حیثیت حاصل رہی ہے۔ پرانے زمانے میں، قبرص، فلسطین، اردن اور موجودہ ملک شام بھی لبنان کے ساتھ ساتھ بلادِ شام کہلاتے تھے۔ میں جب لبنان نے فرانس کے تسلط سے آزادی حاصل کی تو سنی، شیعہ اور عیسائیوں نے مل کر ایک ایسی ریاست تشکیل دی، جس میں تینوں فریق مل کر حکومت کا انتظام چلاتے تھے۔ طویل مدت تک، اس نئی ریاست نے تیزی سے ترقی جاری رکھی اور اقوامِ عالم میں ایک اہم مقام حاصل کر لیا۔ جلیل مانکپوری نے بلاد شام کے بارے میں کیا خوب لکھا!
بلادِ شام کی خاک میں چھپی ہے وہ خوشبو
کہ جس نے دلوں کو صدیوں سے مہکایا ہے
ستر کی دہائی کے اوائل تک بیروت کو مشرقِ وسطیٰ کا سوئٹزرلینڈ کہا جاتا تھا، یہ شہر، تہذیب و ثقافت کا مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ، تجارتی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش رہتا تھا پھر سے اس خوبصورت ملک کو خانہ جنگی نے ایسا گھیرا کہ یہ پورا علاقہ کھنڈرات کی شکل اختیار کر گیا۔ طویل عرصے تک، بیرونی فوجوں کی موجودگی نے اِس خوشحال ریاست کی بنیادیں کھوکھلی کردیں۔ تجارتی سرگرمیاں بھی بہت زیادہ متاثر ہوئیں۔ سات سال پہلے جب ہم سیاحوں کی جنت کہلانے والے اسی بیروت کے ائیرپورٹ پر اترے تو لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ لبنان جیسے عظیم ملک کے دارالحکومت کا انٹر نیشنل ائیر پورٹ ہے۔ آئین کے مطابق،سنی، شیعہ اور عیسائی، حکومت کے مختلف اداروں کو علیحدہ علیحدہ کنٹرول کرتے ہیں۔ ائیرپورٹ کا انتظام، شیعہ گروپ ، حزب اللہ کے حصے میں آیا تھا۔ شاید اسی وجہ سے ائیر ٹریفک کا پورا نظام باقی دنیا سے کٹا ہوا تھا۔ زیادہ تر کائونٹرز پر کمپیوٹر کی بجائے پیپر کا استعمال ہو رہا تھا۔ البتہ ہمارے میزبانوں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے ہمارے گروپ کیلئے بہت اچھے استقبال کا اہتمام کیا ہوا تھا۔
اپنے میزبانوں کے ساتھ ایک دو اچھے لذیذ کھانوں کے بعد جب کچھ بے تکلفی بڑھی تو میں نے وہ چبھتا ہوا سوال ان کے سامنے رکھا کہ آخر بیروت کے زوال کی اصل وجہ کیا تھی؟ مجھ سے دگنی عمر کے جناب الحاج ریاد(مرحوم)نے ایک ٹھنڈی آہ بھرنے کے بعد فرمایا کہ ہماری تباہی کا ذمہ دار امریکہ یا اسرائیل نہیں تھا بلکہ ہمارے اپنے خلیج کے عرب ممالک کے بھائیوں نے ہماری جڑیں کاٹیں اور ثقافت و تجارت کے مرکز، بیروت کو تباہ کرکے دبئی آباد کر ڈالا، پہلے تو مجھے انکی بیان پر کامل یقین نہیں آیا لیکن پھر جب چند مزید سنجیدہ لوگوں نے بھی کچھ اسی طرح کی باتیں بتائیں تو مجھے بھی یقین آہی گیا۔
لبنان کے پہلے سفر کے دوران تو ہم بیروت شہر اور اس کے گردو و نواح تک ہی محدود رہے لیکن ایک دو سال بعد جب دوبارہ بیروت جانے کا موقع ملا تو پورا ملک ہی چھان مارا۔ مسلسل ڈرائیونگ کریں تو آپ ایک ہی دن میں لبنان کا طول و عرض ناپ سکتے ہیں۔ ہم نے البتہ تین چار دن لگا کر مقامی افراد سے بھی بات چیت کے مواقع نکالے اور کچھ تاریخی مقامات بھی دیکھے۔میں ہمیشہ سے یہ سمجھتا رھا کہ تریپولی صرف لیبیا میں واقع ایک شہر ہے۔ یہاں لبنان کے دورے کے دوران پتہ چلا کہ ایک تریپولی اس ملک میں بھی ہے۔ یہ تریپولی نیو جرسی کمیونٹی کے مقبول ترین امام، شیخ حماد شبلی کا آبائی شہر ہے۔ ان دنوں امام شبلی کے والد صاحب خاصے بیمار تھے۔ میں نے امام صاحب سے انکے گھر کا پتہ لیا اور دو تین گھنٹے بعد ہم شہر کے گنجلک راستوں سے گزر کر، امام صاحب کے گھر جا پہنچے۔ امام صاحب کے والد صاحب تو خاصے علیل تھے۔ ان سے تو بس بہت مختصر دعا سلام ہی ہو سکی۔ البتہ انکے بھائی اور والدہ محترمہ کے ساتھ چند گھنٹے گزارنے کا موقع مل گیا۔ ان کی والدہ محترمہ نے بڑی شفقت اور محبت سے ہم سب کا حال احوال پوچھا۔ چند نصحتیں بھی کیں۔ امریکہ اور پاکستان کے حالات بھی پوچھے۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ انہیں حالاتِ حاضرہ سے خوب آگہی تھی۔ بہت ساری باتیں کرنے کے بعد جب ہم ان سے رخصت ہوئے تو مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں اپنی سگی والدہ کو الوداع کہہ کر اب امریکہ جا رہا ہوں۔لبنان کے اس سفر کے دوران ہم سنی، شیعہ اور عیسائی، تینوں علاقوں سے گزرے۔ اس زمانے میں، وہاں امن و امان تو قائم تھا لیکن چونکہ ریاست کی بنیادیں طویل خانہ جنگی کے باعث ہل چکی تھیں، اس لئے حکومت میں استحکام نہیں رہا تھا۔ آجکل جب پاکستان کے حالات دیکھتا ہوں تو پتہ نہیں کیوں مجھے لبنان کا یہ عدمِ استحکام یاد آجاتا ہے۔ خانہ جنگی، مضبوط سے مضبوط ریاست کو بھی کھوکھلا کر دیتی ہے۔
لبنان کا صاف ستھرا خوبصورت ملک، آجکل پھر اسرائیل کی جنگی جارحیت کا شکار ہے۔ بے گناہ لوگوں پر ظلم و جبر ہو رہا ہے۔ مجھے آج بھی بیروت میں موجود فلسطینیوں کے وہ کیمپ نہیں بھولتے جو میں نے اپنے دونوں دوروں کے دوران دیکھے۔ انتہائی کسمپرسی کے حالات میں پلنے والی ان انسانی نسلوں کو کب تک زیرِ عتاب رکھا جا سکے گا؟ آخر تو اس ظلم کا حساب دینا پڑے گا۔ فیض صاحب نے کیا خوب کہا تھا۔
اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو، بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت
چلتے بھی چلو کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے
اے ظلم کے ماتو لب کھولو چپ رہنے والو چپ کب تک
کچھ حشر تو ان سے اٹھے گا کچھ دور تو نالے جائیں گے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here