فرزانہ فرحت : آوازِ دلِ شکستہ!!!

0
20

گزشتہ سے پیوستہ!!!
تفو بر تو اے چرخِ گرداں تفو۔دیارِ غیر میں رہنا باعثِ معاشی آسودگی سہی لیکن غریب الوطنی دل کو ویران کر دیتی ہے۔ انسان بے شناخت ہو جاتا ہے۔ احساسِ کمتری روح کی گہرائیوں تک اتر جاتی ہے۔ تنہائی اور افسردگی ذہنی بیماریوں کا شکار بنا دیتی ہیں۔ بے وطنی انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ حفیظ جونپوری کا شعر ہے!
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھائوں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے غریب الوطن کے لئے ہر بزم بزمِ غیر ہوتی ہے۔ فرزانہ فرحت کا المیہ بھی بے وطنی کا سوگ ہے۔ کہتی ہیں!
دور تک اس کی محبت کے جو افسانے گئے
لوگ سارے شہر کے سنگ برسانے گئے
کس قدر چھائی ہوئی تھی چار سو افسردگی
کس لیے اس بزم میں ہم دل کو بہلانے گئے
پاں سے لپٹی رہی تھی خانہ ویرانی کی ریت
ہم وہ وحشی تھے، ہمارے ساتھ ویرانے گئے
یہی وہ احساسِ تنہائی ہے جو ایک زندہ ضمیر اور باشعور انسان کو انسانوں کے جنگل میں تنہا کر دیتا ہے۔ اسی المناک سماجی اورانسانی صورتِحال کے بارے میں مولانا روم نے کہا تھا
دی شیخ باچراغ ھمی گشت گِردِشہر
کز دام و دد ملولم و انسانم آرزوست
گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما
گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست
بس یہی وہ المیہ ہے کہ جس انسان کی رومی کو تلاش تھی ویسے انسان کی فرزانہ فرحت کو بھی تلاش ہے۔ کہتی ہیں!
تم آ جا تو مِل کرطے کریں صحرا جدائی کا
اکیلے ہم سے ریت اِس دشت کی چھانی نہیں جاتی
آپ نے اساتذہ کی مشکل زمینوں میں بھی طبع آزمائی آزمائی کی ہے۔غالب کی ایک مشہور غزل ہے جس کا ایک شعر ہے!
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، شبِ غمِ بری بلا ہے
مجھے کیابرا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
اِس بحر میں کامیاب غزل کہنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ فرزانہ فرحت نے یہاں بھی عمدہ غزل کہہ کے اپنے آپ کو منوایا ہے۔ کہتی ہیں!
میں ترے قریب آ کر تجھے کس خوشی سے ملتی
مرے راستوں میں غم کاجو نہ یہ غبار ہوتا
فرزانہ فرحت کی شاعری کو میں نے آوازِ دلِ شکستہ قرار دیا ہے۔ ولیئم ورڑزورتھ ( William Wordsworth) شاعر کو معاشرے کا حساس ترین شخص قرار دیتا ہے ۔ شکستہ دلی کا چاہے جو بھی سبب ہو، دلِ آزردہ کی فغاں حقیقی اور فطری شاعری ہے اور اِس معیار پر فرزانہ فرحت کی شاعری پوری اترتی ہے۔ شکستہ دل کے بارے میں علامہ اقبال نے خوب کہا تھا!
تو بچا بچا کے نہ رکھ اِسے تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں
اِسی شکستہ دلی، افسردگی، تشنگی اور بے چینی کی بدولت انہیں کہنا پڑا
کس لئے ہے میرے دل میں تشنگی ہی تشنگی
کیوں محبت کی زمیں ہے کربلا میرے لئے
جہاں آپ کی شاعری میں دردِ محبت کی فراوانی ہے وہاں دردِ انسانی بھی وجدانی ہے۔ کہتی ہیں
ہیں خوف سے سہمے ہوئے انسان یہاں پر
اِس شہر میں بارود کی یہ کیسی دھمک ہے
یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ آپ کی شاعری عرفا ن اور وجدان کا حسین سنگم ہے۔ روایت اور جدت کی آئینہ دار ہے -اردو شاعری میں گراں قدر اضافہ ہے-
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here