طالبا ن کا زوال و عروج !!!

0
120
مجیب ایس لودھی

افغانستان میں حالات کبھی استحکام میں آئیں گے یہ خیال دیوانے کا خواب معلوم ہوتا ہے ، افغانستان میںجنگی ماحول ، ہلچل ،بھاگم بھاگ ، خوف کی فضا ہمیشہ سے قائم و دائم ہے چاہے دور طالبان کا ہو یا غنی حکومت کا ،طالبان کے زوال سے عروج تک افغانیوں کو کبھی پرسکون زندگی میسر نہیں آئی ہے ، افغانستان میں لبرل نظریات کے حامل افراد کے لیے پسندیدہ اور مذہبی لوگوں کی نظر میں ناپسندیدہ ترین شخص ڈاکٹر نجیب کو آج سے 25 سال قبل طالبان کی جانب سے قتل کرنے کے بعد ان کی لاش کو کرین پر لٹکا دیا گیا تھا۔افغانستان میں جمہوری حکومت کی بات کی جائے تویکم جنوری 1995 کو قائم ہونے والی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان (پی ڈی پی اے) کے سوویت یونین کے ساتھ قریبی تعلقات تھے لیکن یہ پارٹی بعد میں دوحصوں میں تقسیم ہوکر خلق اور پرچم کے نام سے پکاری جانے لگی ، خلق کی قیادت نور محمد ترکئی اور حفیظ اللہ امین کے ہاتھوں میں تھی جبکہ پرچم کی قیادت ببرک کارمل نے کی۔ظاہر شاہ خاندان پر بدعنوانی کے الزامات کے بعد سردار داؤد 17 جولائی 1973 کو اقتدار پر قبضہ کرکے صدر بن گئے تاہم 28 اپریل 1978 کو پی ڈی پی اے کے رہنماؤں نور محمد ترکئی، ببرک کارمل اورامین طلحہ نے سردار داؤد حکومت کو ختم کیا اور سردار داؤد اور ان کے خاندان کے دیگر افراد خونیں فوجی کارروائی میں قتل کر دیئے گئے۔یکم مئی کو نور محمد ترکئی ملک کے صدر بن گئے جبکہ 14 ستمبر کو حفیظ اللہ امین نے نورمحمد ترکئی کو معزول کردیا جس کے بعد نور محمد ترکئی قتل کر دیے گئے اور حفیظ اللہ امین اقتدار پر قابض ہوئے۔
افغانستان میں اقتدار کی رسہ کشی کے دوران سوویت یونین نے 24 دسمبر 1979 کو افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کیں جس کے فوراً بعد ہی 27 دسمبر 1979 کو حفیظ اللہ امین بھی قتل کر دیئے گئے جبکہ سوویت یونین نے اقتدار ببرک کارمل کے حوالے کیا۔عالمی دباؤ اور مجاہدین کی کارروائیوں کے باعث سوویت یونین نے 15 مئی 1988 کو افغانستان سے فوجیں نکالنا شروع کیں اور15 فروری 1989 تک انخلاء مکمل ہوا۔سوویت یونین نے افغانستان میں پیش آنے والی مختلف ناکامیوں کا تمام تر ملبہ ببرک کارمل پر ڈال دیا تھا اور اس کے بعد ببرک کارمل کی جگہ ستمبر1987 میں اقتدار ڈاکٹر نجیب اللہ کے حوالے کردیا گیا تھا۔ایک ایسے وقت میں جب مختلف مجاہدین تنظیمیں کابل کی طرف گامزن تھیں اور ان سب کا مقصد داکٹر نجیب کو اقتدار سے ہٹانا تھا کیونکہ وہ انہیں نہ صرف سوویت یونین کی کٹھ پتلی بلکہ اسلام دشمن بھی سمجھتے تھے۔سیاسی حالات انتہا ئی خراب ہونے پر اپریل 1992 میں ڈاکٹر نجیب اللہ سے زبردستی استعفیٰ لے لیا گیا۔
ڈاکٹر نجیب پاکستان کے سخت مخالف تصور کیے جاتے تھے اور انہوں نے افغان عوام میں پاکستان کے خلاف نفرت کے بیج بونے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ انہیں بھارت نواز ہونے کے باوجود بھارت کی جانب سے پناہ دینے کی نیم دلی کے ساتھ ایک کوشش کی گئی تھی جو کامیاب نہیں ہوسکی تھی اگرچہ ان کی بیوی اور بچوں کو بھارت نے پناہ دے ہوئی ہے لیکن افغان عوام میں ان کی شدید نفرت کے باعث بھارت انہیں پناہ دینے کا خطرہ مول نہیں لے سکا۔نجیب اللہ کو قتل کرنے کے بعد طالبان نے ان کی نمازِ جنارہ بھی نہیں پڑھائی تاہم بعد میں نجیب اور ان کے بھائی کی لاشوں کو ریڈ کراس کے حوالے کر دیا گیا جس کے بعد احمد زئی قبیلے کے لوگوں نے ان کی تجہیز و تکفین کی ، بلاآخرر دو دہائیوں کی جنگ جس میں 6ہزار سے زائد امریکی، 2لاکھ سے زیادہ افغان ہلاک ہوئے اور 2 ٹریلین ڈالر سے زیادہ امریکی وسائل خرچ ہونے کے باوجود طالبان نے افغانستان پر قبضہ کر کے دنیا کو حیران کردیا۔ امریکہ کے دفاعی حکام نے مبینہ طور پر توقع ظاہر کی تھی کہ افغانستان کا دارالحکومت کابل تقریبا 90 دنوں میں مفتوح ہوجائے گا لیکن اس میں 10 دن سے بھی کم وقت لگا۔ طالبان کی اس تاریخی و عظیم فتح کی اہم وجوہات میں انٹیلی جنس ناکامی، زیادہ طاقتور طالبان، کرپشن، ثقافتی اختلافات اور قوت ارادی شامل ہیں۔
یہاں اس بات کو اُجاگر کرنا بہت ضروری ہے کہ اس طویل جنگ نے ناصرف افغانستان کو بلکہ خطے کے تمام ممالک کو متاثر کیا۔خاص طور پر پاکستان اس کی شدید لپیٹ میں آیا اور اس کے مضراثرات سے آج بھی نہیں نکل سکا۔ پاکستان نے گزشتہ کئی دہائیوں سے افغانستان کی ہر محاذ پر ہر ممکن امداد کی ، خاص طور پر افغان مہا جرین کی مہمان نوازی و آباد کاری کے ساتھ بلواسطہ یا بلا واسطہ بڑی جانی و مالی قربانیاں دیں، دہشت گردی جیسی عفریت کا سامناکیا جس کا پاکستان دشمن قوتوں خاص کر بھارت نے خوب فائدہ اُٹھایا اور ملک میں دہشت گردی، فرقہ واریت،انتشار، بد امنی و عدم استحکام پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ امریکا نے 2.66 ٹریلین ڈالر کا بجٹ اس جنگ میں جھونک ڈالا، یہ رقم دنیا کے تقریبا 180 ممالک کے بجٹ سے زیادہ ہے جس کو پسماندہ ممالک میں ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کیا جا سکتا تھا ، طویل جنگ ، بھاری جانی و مالی نقصان کے باوجود کچھ حاصل نہ ہونے کے بعد امریکہ سمیت تمام ممالک کو اس بات کا ادراک کرنا چاہئے کہ افغانستان میں دائمی امن اور مستقل حکومت کا قیام ہی خطے میں امن کی ضمانت ہے ،پاکستان اس کے لیے کردار ادا کررہا ہے لیکن اس کے ساتھ بڑی طاقتوں کو بھی اس میں حصہ ڈالنا ہوگا ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here