اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس پوری دنیا کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، بنیادی طور پر اس اجلاس کے موقع پر تمام ممالک اپنی ریاستی پالیسی کو آکر اس فورم پر اُجاگر کرتے ہیں۔پاکستان کی بات کی جائے تو گزشتہ کئی سالوں سے ہر سال پاکستانی میڈیا اور سیاسی بیٹھکوں میں چند دن بڑا شور شرابا رہتا ہے۔گزشتہ چند سالوں سے دیکھا جائے تو اقوام متحدہ میں کی جانے والی پاکستان کی تقریر پاکستان کی سیاست کا بڑا اہم پہلو سمجھی جانے لگی ہے۔اگرچہ تمام تقریریں نکال کر دیکھ لیں اس کا مواد کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آئے گا۔مسئلہ کشمیر، پاکستان میں بھارت کی دخل اندازیاں، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، سرمایہ کار ممالک کو تنبیہ وغیرہ وغیرہ ہمیشہ سے پاکستان کی جانب سے کی جانے والی تقریر کے خدوخال بنتے ہیں۔یہ تمام بہت اچھی باتیں ہیں اور کسی بھی آزاد ملک کو اسی طرح کی باتیں اس طرح کے فورم پر آکر کرنی چاہیے۔مگر پاکستان کے سابقہ حکومتیں ہو یا موجودہ حکومت المیہ یہ رہا ہے کہ ایسی باتیں کرنے کے بعد ہم ان کو ایسے بھولتے ہیں جیسے رات گئی بات گئی۔ایک سال تک آپ بھول گئے مسئلہ کشمیر پر پاکستان اپنی پالیسی کو اسی طرح جاری رکھے گا۔بھارت کی دخل اندازی پر تو مختلف فورمز پر بات چیت جاری رہے گی مگر جس جوش و خروش کا مظاہرہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر کیا جاتا ہے وہ پورا سال ہمیں دیکھنے کو دوبارہ نہیں ملے گا۔تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ یہ ممالک ہر سال پاکستان کی یہی تقریر سننے کے بعد کیا سوچتے ہوں گے۔
کیا سوڈان اور صومالیہ جیسے ممالک بھی یہ سوچنے پر مجبور نہیں ہوں گے کہ آخر یہ خطے کے لوگ اور ممالک کتنے برسوں سے انہی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں، کیا دنیا یہ نہیں سوچتی ہوگی کہ آخر پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہنے کے عزم کا اعادہ بھی کرتے نظر آتے ہیں اور ایک دوسرے کی بات پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔کیا دنیا یہ نہیں دیکھتی ہوگی کہ اقوام متحدہ کے فورم پر یہ دونوں ممالک کی عزم کا اظہار کرنے کے بعد کہ ہم مسائل کے حل کے لیے مل کر بیٹھنے پر تیار ہیں، پورا سال ایک دوسرے کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھتے۔
مختصر ایسی صورتحال میں نتیجہ یہ نکلے گا کہ دنیا ہماری باتوں کو سنجیدہ لینا چھوڑ دے گی، ہم پورا سال تقریر تیار کرتے رہیں گے اور ان کو پہلے ہی معلوم ہوگا کہ ہم نے آکر کیا تقریر کرنی ہے اور بھارت آ کر کیا بولے گا۔حکومتوں کی چاندنی تو ہوجاتی ہے مگر اس کا خمیازہ غربت کی صورت میں دونوں ممالک کی عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔افسوس کے ہماری عوام بھی اس بات کو بھول جاتی ہے، کبھی اپنے حکمرانوں سے سوال نہیں کرتی کہ آپ ہر سال یہی باتیں کر کے آ جاتے ہیں، مگر عملی طور پر ایک قدم بھی آگے نہیں جاتے۔جس دن پاکستان اور بھارت کی عوام جاگ گئی اور انہوں نے ان کی تقریروں پر جواب طلبی شروع کردی تو اُمید ہے کہ رات گئی بات گئی والی یہ روایت دم توڑ جائے گی۔
٭٭٭