تکلیف بڑھتی ہے اور انسان اس کا عادی ہوتا جاتا ہے۔اگر وہ اس کا علاج نہ کرائے ایسا ہی ہے کہ ناانصافی، ظلم، لالچ، جھوٹ اور جارحیت بڑھتی رہتی ہے۔اگر انسان اس کے خلاف احتجاج نہ کرے۔اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔دنیا کے نقشہ پر اور انسانوں کا یقین ختم ہورہا ہے کہ احتجاج سے کچھ ہوسکتا ہے۔لکھاریوں نے بھی قلم چھوڑ دی ہے کہ لکھنے کا کیا فائدہ لیکن ایسا نہیں ہے امریکہ میں اگر ڈاکٹر مارٹن لوتھرکنگ احتجاج نہ کرتے تو سیاہ فام امریکن کو امریکہ میں پوری آزادی نہ ملتی۔انہوں نے کہا تھا کہ یہ ہر انسان کا اخلاقی فرض ہے(ذمہ داری)کہ وہ ناانصافی کے خلاف حکم عدولی کرے۔”یہودی نژاد امریکن لکھاری ایلی ویژل جن کی پیدائش رومانیہ میں ہوئی تھی نے٥٧کتابیں لکھی ہیں اور وہ ہولوکاسٹ کی زد میں رہا ہے۔نوبل پرائز بھی ملا ہے۔بڑی اچھی بات لکھی تھی جس پر اسرائیل عمل پیرا نہیں ہوسکتا ہے ہم کسی وقت اس قابل نہ ہوں کہ ناانصافی روک سکیں لیکن یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ ہم احتجاج کرنے میں ناکام ہوں۔ اس قول کے تحت دنیا میں ہمیشہ سے ہی احتجاج ہوتا آیا ہے۔مذہبی کتابوں میں بھی لکھا ہے اور موجودہ دور میں عراق پر امریکی بمباری کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج ہوا۔کشمیر اور فلسطینیوں کے لئے بھی دنیا میں جگہ جگہ احتجاج ہوتے رہے ہیں۔آوازیں اٹھائی جاتی ہیں اسلام سے پہلے اور خلافت کے بعد اسلام میں جگہ جگہ ہمارے رسول نے اور قرآن پاک میں بیان کیا گیا ہے۔”انصاف کے لئے کھڑے ہوجائو ہر چند کہ یہ تمہاری ناانصافی تمہارے والدین اور اقارب کی ناانصافی کیخلاف ہو۔رسول اللہ ۖنے ارشاد فرمایا ہے۔ظلم سے بچو کیونکہ ظلم قیامت کے دن اندھیروں کا سبب بنے گا،انہوں نے یہ بھی فرمایا جوآج ہم نظرانداز کر رہے ہیں اور جو ہماری ذلتوں کا سبب بن رہا ہے ان کا فرمانا تھا۔”اپنے پیچھے قرآن اور سنت چھوڑ رہا ہوں اگر تم نے اس پر عمل کیا تو کبھی بھی گمراہ نہ ہوگے”۔اور ہم گمراہ ہوگئے ہیں۔اور آج ہماری گمراہی کا سبب یہی ہے کہ٥٢ممالک(مسلم)اقوام متحدہ کے٧٦ویں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں خاموش بیٹھے رہے ، اسرائیل کے پیچھے، جب اسرائیل کے مندوب نے چیئرمین سے درخواست کے بغیر قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر ممبران سے ایک منٹ کھڑے ہونے کے لئے کہا۔ہولوکاسٹ میں جرمن نازی کے ہاتھوں مارے جانے والے یہودیوں کے لئے۔اس کے فوراً ہی بعد کیوبا کی خاتون مندوب نے کھڑے ہو کر مندوبین کو جگایا اور اسرائیل کے اس قدم کو اسمبلی کے اصول کے خلاف کہتے ہوئے مندوبین سے اسرائیلی ظلم ،تشدد اور ناانصافی کے خلاف ایک منٹ کھڑے ہونے کی اور یہ بات اس نے لکھے ہوئے مسودے کے علاوہ کہی ،اسرائیل کے جواب میں فلسطین کی حمایت میں لیکن یہ زندہ قوم کی زندہ مثال ہے کہ یقین ہوتا ہے کہ باضمیر اور دلیر لوگ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والے ہیں۔آفرین اس کیوبن خاتون پر۔ہر سال جنرل اسمبلی کا یہ اجتماع ایک جمعہ بازار ہوتا ہے ہر ملک اپنے اپنے انداز سے ظلم اور ناانصافی کے خلاف بولتا ہے،ہمارے ملک پاکستان سے بھی عمران خان نے ایک ویڈیو تقریر جنرل اسمبلی اونگتے سوتے اور بہرے مندوبین کے لئے بھیج دی جس کا اعلان شاہ محمود قریشی نے اپنی ڈیسک پر بیٹھ کر کیا ہمیں عمران خان کا یہ عمل پسند آیا کہ انکے آنے اور تقریر کرنے سے یہ ہی ہوتا جو آج ہو رہا ہے۔برسوں سے ہورہا ہے۔کشمیر ہو یا فلسطین طاقتور کمزور پر چڑھا بیٹھا ہے۔اور آئن اسٹائن(ایٹم بم کا موجد)کا یہ قول غلط ہوگیا ہے۔”دنیا ایک خطرناک جگہ ہے رہنے کے لئے، ان لوگوں کی وجہ سے نہیں جو بدمعاش، لالچی اور بے ایمان ہیں۔بلکہ ان کی وجہ سے جو خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔”ہمارا کہنا ہے کہ وہ کر بھی کیا سکتے ہیں پچھلے پچاس سالوں میں بڑی طاقتوں نے بالخصوص امریکہ نے عوام کو ایسے جکڑا ہے کہ وہ دماغی جسمانی اور مالی طور پر محتاج ہوگئے ہیں ان فکروں میں دبے ہیں کہ مستقبل میں کیا ہوگا۔حالیہ کووڈ19کے بعد امریکہ میں مہنگائی کا سیلاب ضرورت انسان کی ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔تفصیل میں جائے بغیر آپ اندازہ کریں پوری دنیا چین کی لاٹھی کے سہارے ہے۔اب ان حالات میں انسان بے بس ہے کیا احتجاج کریگا۔اور کس سے کریگا جب سننے والا کوئی نہ ہو۔ایک چھوٹی سی مثال دیتے چلیں کل ہمB.Jہول سیل میں گئے سامان بٹورنے میں ہمیں15منٹ لگے ہونگے لیکن قیمت ادا کرنے کی لائن میں پون گھنٹہ افراتفری کا عالم تھا۔لمبی لائن اور وہاں نہ کوئی منیجر یا سپروائزر جس سے ہم کہہ سکتے صرف دو کیشئر ہی کیوں باقی خود کار کیشئر جو بہت سے لوگوں کو معلوم ہی نہیں تھا ایک کالی ملازم آئی اور اس نے تھوڑی دیر کھڑے ہو کر لائن میں کھڑے لوگوں سے کہا تم نمبر٨میں اور تم نمبر٧میں جاکر خود کار مشین پر قیمت ادا کردو ”ہر جگہ یہ ہی عالم ہے ایک فولڈنگ میز کی قیمت جو٤٠ڈالر تھی وہ٥٢ڈالر میں بک رہی ہے امریکہ میں قیمتوں پر کوئی کنٹرول نہیں جو مزاج یار چاہے لوٹے جائیے۔احتجاج کا صرف یہ ہی طریقہ ہے کہ ہم بے ضرورت بے حساب چیزیں نہ خریدیں لیکن مجبوری کہ تھرڈ ورلڈ ملکوں سے آئے لوگ اسے بھی پاکستان سمجھتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ کل یہ چیز نہ ملے تو بھر لو اگر بھر سکو اس وبا نے لوگوں کے اعصاب پر بھی اثر کیا ہے کہ کاروں کا ہجوم ہر جگہ نظر آئے گا کیا ہم پاکستانی ہونے کے ناطے اور مسلمان ہو کر قرآن اور سنت پر عمل کر رہے ہیں ہمارا جواب ہوگا نہیں۔پاکستان میں تو ایسا ہی ہے جہاں ملزم کو سزا نہیں اگر وہ طاقتور ہے تو ہم رسول ۖکے اس قول پر کیوں عمل نہیں کرتے”تم سے پہلے جو قومیں تھیں وہ نابود کردی گئیں جب شرفاء تم میں سے ہوں اور نظر انداز کردیئے جائیں اور اگر غریب اور کمزور چوری کرے تو سزا دو۔بخدا اگر فاطمہ چوری کرتی تو اسکے ہاتھ کاٹ دیتا” اتنا سخت پیغام بڑے چوروں کے لئے اورمسلمان ججز وکیل ، مظلوم اور انصاف کی فراہمی ناپید تو ہوہی ہوگا جو قرآن میں ہے۔کسی بھی کتاب، زبان اور مذہب میں سب باتیں انصاف کے لئے اور ناانصافی کے خلاف احتجاج کے لئے یکساں ہیں۔احتجاج کبھی بھی امن کے لئے مضر نہیں ،کرپشن، ناانصافی، جنگ اور دھمکی امن کے دشمن ہیں ،دانشوروں نے اپنے مشاہدے اور تجربے کا نچوڑ کتابوں کی شکل میں دیا ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ ہم قرآن اور سنت پر عمل نہیں کر پا رہے تو یہ منافقت نہیں تو کیا ہے۔اللہ بہتر کرے گا لیکن ہم کچھ نہیں کرینگے فیصلہ آپ پر۔
٭٭٭