”دھندہ ہے پرگندا ہے ” ”متعفن لاش اور گندگی کا ڈھیر”

0
143
شبیر گُل

قارئین ! جمہوری نظام سیاسی جماعتوں سے چلتے ہیں۔ اگر سیاسی جماعت میں جمہوریت ناہو،تو قیادت کا فقدان پیدا ہوتا ہے ۔پارٹی میں ڈکٹیڑ شپ پیدا ہوتی ہے ۔مسلم لیگ ہو یا پیپلز پارٹی ان جماعتوں میں خودی پسندی کا عنصر غالب ہے ۔فحاشی کلچر نے جگہ لے لی ہے ۔ کبھی رات کو تنظیم سازی کی جاتی ہے اور کبھی وفاقی نمائندے ،گورنر زبیر لڑکیوں کے ساتھ برہنہ نظر آتے ہیں۔ سیاسی بیہودگی کا عنصر ن لیگ کا وطیرہ رہا ہے ۔جب سیاسی جماعتوں میں فحاشی کلچر آجائے تو ایسی جماعتیں دفن ہو جایا کرتی ہیں جو آئندہ مسلم لیگ ن میں نظر آ رہا ہے ۔
جنرل ضیاء الحق کے دور اقتدار میں میاں نواز شریف پاکستانی سیاست میں متعارف ہوئے ، دیکھتے ہی دیکھتے ،وزیر خزانہ پنجاب، وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم کی کْرسی تک پہنچ گئے۔
مسلم لیگ کے مردہ گھوڑے میں ضیاء الحق نے روح ڈالی۔ مجلس شوریٰ بنائی ، پھر غیر جماعتی پارلیمنٹ سے دوبارہ مسلم لیگ معرض وجود میں آئی۔جونیجو مرحوم کی وزارت اعظمیٰ کی شکل نمودار ہوئی جس پر وزیراعلیٰ پنجاب نواز شریف نے شب خون مارا اور مسلم لیگ میں سے ن لیگ بنا ڈالی۔ چھانگا مانگہ کی سیاست کا رواج آیا۔ شریف خاندان نے سیاسی اور اخلاقی رواداری کو دفن کرتے ہوئے ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کا گندا دھندہ شروع کیا۔ پارلیمنٹ کے ہاسٹلز میں شامیں رنگین ہونا شروع ہوئیں۔ ایک مہذب بدمعاشی کا آغاز ہوا، سیاست میں بداخلاقی اور بے حیائی نے رواج پایا۔مشرف دور میں بھی ویمن امپاورمنٹ کے نام پر بے حیائی کو فروغ دیا گیا۔ یہ سیاسی اشرافیہ ملکی نظریات کی دھجیاں اُڑاتی رہیں ، کبھی پٹواری، کبھی جیالے اور کبھی یوتھیے اس متعفن لاش سے برآمد ہوتے رہے ۔ سیاسی اخلاقیات کا جنازہ نکالا گیا۔ جرنیل، بیوروکریٹس ، جج، سیاستدان اور سیاسی ایلیٹ سیاسی رنگ رلیوں کے ساتھ فحاشی اور عریانیت کو فروغ دیتے رہے ۔نوازشریف کے دوراقتدار میں سیاسی رہنماؤں کی عزتیں اُچھالی گئیں۔
بینظیر بھٹو ، نصرت بھٹو کے خلاف اخلاق باختگی کا مظاہرہ ہوا ،انکے خلاف گندے پوسٹرز شائع ہوئے۔ دوران الیکشن جہازوں سے گرائے گئے،جمائمہ خان کے خلاف مہم چلائی گئی۔ججز اور بیوروکریٹس کو خریدا گیا، ڈیموکریٹک سسٹم میں کرپشن کو رواج دیا ،ارکان پارلیمنٹ کی گندی تصویریں شائع کی گئیں۔آج ایک بار پھر مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے اپنے باپ کی گندی ذہنیت کو اپناتے ہوئے، ججز، بیوروکریٹس اورسیاسی لیڈرز کی ویڈیوز بنا کر بلیک میلنگ کادھندہ شروع کیا ہے ۔اس گندگی میں اسکے اپنے پر بھی جل سکتے ہیں ، اس گندگی نے سیاسی ایلیٹ کو تماشہ بناکر رکھ دیا ہے ۔مریم نواز نے پہلے ججز کی فلمیں بنوائیں، آجکل پارٹی کے سینئر رہنماؤں کی لڑکیوں کے ساتھ بوس و کنار کی فلمیں سوشل میڈیا پر چلوائی جارہی ہیں تاکہ کوئی سینئر رہنماء پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ نہ کرسکے۔ مریم نواز کو کسی دن مکافات عمل سے گزرنا پڑے گا۔مسلم لیگ ن آئندہ مہینوں میں دو یا تین گروپس میں تقسیم ہوتی نظر آرہی ہے ۔اندر کی چپقلش نے پارٹی کو انتشار کی طرف دھکیل دیا ہے ۔مریم نواز عورت نما مرد ہے جسے انتہائی گھٹیا،بیہودہ ،فخش اور عریاں تصویریں اور ویڈیو کلپس بناکر پارٹی رہنماؤں کو قابو کرنے کی بھونڈی کوشش ہے ، مریم نواز کا کردار گھریلو تربیت کا مظہر ہے ۔ماں کی تربیت کا فقدان اْنکے لب و لہجے سے نظر آتا ہے ۔میں ایک غیر مسلم کے اخلاقی پہلو کو یہاں اْجاگر کرنا چاہتا ہوں۔
ایک ایتھلیٹ کا کہنا ہے کہ!
(میری ماں میری اس حرکت پر کیا سوچتی)
دوڑ کے مقابلوں میں فنش لائن سے چند فٹ کے فاصلے پر کینیا کا ایتھلیٹ عبدالمطیع سب سے آگے تھا مگر اس نے سمجھا کہ وہ دوڑ جیت چکا ہے، اس کے بالکل پیچھے سپین کا رنر ایون فرنینڈز دوڑ رہا تھا اس نے جب دیکھا کہ مطیع غلط فہمی کی بنیاد پر رک رہا ہے تو اس نے اسے آواز دی کی دوڑو ابھی فنش لائن کراس نہیں ہوئی، مطیع اس کی لینگوئج نہیں سمجھتا تھا اس لئے اسے بالکل سمجھ نہ آئی، یہ بہترین موقع تھا کہ فرنینڈز اس سے آگے نکل کے دوڑ جیت لیتا مگر اس نے عجیب فیصلہ کیا اس نے عبدالمطیع کو دھکا دے کے فنش لائن سے پار کروا دیا، تماشائی اس سپورٹس مین سپرٹ پر دنگ رہ گئے، فرنینڈز ہار کے بھی ہیرو بن چکا تھا، ایک صحافی نے بعد میں فرنینڈز سے پوچھا تم نے یہ کیوں کیا، فرنینڈز نے جواب دیا، “میرا خواب ہے کہ ہم ایک ایسا معاشرہ قائم کریں جہاں کوئی دوسرے کو اس لیے دھکا دے تاکہ وہ جیت سکے”صحافی نے پھرپوچھا “مگر تم نے کینیا کے ایتھلیٹ کو کیوں جیتنے دیا”فرنینڈز نے جواب دیا”میں نے اسے جیتے نہیں دیا، وہ ویسے ہی جیت رہا تھا، یہ دوڑ اسی کی تھی”صحافی نے اصرار کیا” مگر تم یہ دوڑ جیت سکتے تھے “فرنینڈز نے اس کی طرف دیکھا اور بولا ” اس جیت کا کیا میرٹ ہوتا؟ اس میڈل کی کیا عزت ہوتی؟ میری ماں میرے بارے میں کیا سوچتی؟”
اقدار نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں، ہمیں اپنے بچوں کو کیا سکھانا چاہئے، بلاشبہ یہ کہ جیتنے کیلئے کوئی بھی ناجائز طریقہ اختیار نہیں کرنا، وہ آپ کی نظر میں جیت ہوسکتی ہے، دنیا کی نظر میں آپ کو بددیانت کے علاوہ کوئی خطاب نہیں ملے گا۔
اخلاقی اقدار نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں کیا نواز شریف صاحب اپنی بیٹی کو وہی سکھا رہے ہیں جو انہوں نے کیا تھا۔ کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی کردار سازی کر رہے ہیں یا ان کو دماغی طور پر مفلوج کررہے ہیں۔ اس وقت ن لیگ میں ایک فاشسٹ نظریات پر مشتمل گروپ مریم نواز کی قیادت میں غالب ہے ۔
مریم نواز سیاست میں انتہائی بیمار ذہنیت کے ساتھ وارد ہوئی ہیں۔ انکی آواز میں کرختگی، گفتگو میں نفرت انگیزی،کردار میں دشمنی ،منفی اپروچ اور فرعونی نظریات کی عکاسی عیاں ہے ۔جج ارشد ملک اور اب سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی لڑکیوں کے ساتھ عریاں تصویریں انتہائی گھٹیا اور مکروہ کام ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے ۔ ریاستی اداروں کو ایسی ویڈیوز کے خلاف قانونی کارروائی کرنی چاہئے۔سائبر کرائم ،ایف آئی اے، آئی بی اور آئی ایس آئی کو ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہئے تاکہ آئندہ ایسی گندی حرکت کرنے کی کسی کو جْرات نہ ہو۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here