امام حسین کے اصحاب و انصار کی قدرومنزلت

0
112
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

گذشتہ سے پیوستہ
عمیر بن عبداللہ مذجحی کی شہادت ابن شہر آشوب نے لکھی ہے ، عمیر بن کناد پر بھی زیارت رجبیہ میں سلام وارد ہے قزطہ انصاری گورنر فارس کے بیٹے عمرو فوج حسینی میں تھے جب کہ علی نامی بیٹا فوج یزیدمیں تھا عمرو بن قرظہ امام حسین پر آنے والے ہر تیر کو سینے پر لیتے تھے ، ان کے ذریعے امام حسین نے اپنے نانا کو سلام بھیجا تھا۔ عمرو بن عبداللہ کو سر پر یزیدی فوج نے ضرب ماری وہ ایک سال علیل رہنے کے بعد شہید ہوئے ، صحابی رسولۖ عمرو بن صنیعہ تمیمی پہلے پسر سعد کے ساتھ تھے مگر تائب ہو کر لشکر حسینی میں آکر شہید ہوئے عمرو بن کعب انصاری بھی شہید راہ خدا ہیں امام علی کے خاص صحابی طرماح بن عدی کربلا کے شہداء میں ہیں جو حضر ت علی کی سفارتی جنگ لڑتے رہے اور بڑی جوانمردی سے آپ کے سیاسی حریفوں کو دندان شکن جواب دیتے تھے ضرغامہ بن مالک شیربن کر لڑے اور شہید ہوئے۔جب کہ صنیعہ بن عمر کی شہادت زیارت رجبیہ سے ثابت ہے۔سفیر حسین کے قاصد شوذب بنی شاکر کے درمیان رہتے تھے یہ حضرت مسلم بن عقیل کا خط امام عالی مقام کے پاس لائے اور پھر واپس نہ گئے یہاں تک کہ یہ شہید راہ خدا ہوگئے شبیب بن عبداللہ نہشلی کا نام بھی ان مقدس شہداء میں درج ہے صحابی رسولۖ شبیب بن عبداللہ بن حارث بنی جابر کے قبیلہ سے تھے یہ بھی پہلے حملے کے شہیدوں میں ہیں کوفہ کے بہادر شبیب بن جراد کلابی جنگ صفین کے بہادروں میں سے تھے مگر لشکر یزیدمیں شامل تھے ان کی غرض صلح کی تھی مگر تاسوعامیں ابن زیاد کے پیغام کو سن کر کہ اگر بیعت نہ کریں تو حسین کو قتل کردو لشکر حق میں آملے تھے یہ حضرت عباس کی والدہ گرامی کے قبیلہ سے تھے سیف بن حارث اور ان کے کزن مالک بن عبداللہ روز عاشور رو پڑے تھے کہ اے فرزند رسول ۖ ہم شرمندہ ہیں ہم آپ کو بچا نہیں سکے امام کی دعا لے کر لڑے اور شہید ہوئے تھے انتہائی بوڑھے سوید بن عمر بڑی جوانمردی سے لڑ کر شہید راہ خدا قرار پائے۔ دشمن نے جب ان کی تلوار چھین لی تو چھڑی سے وقت آخر تک لڑتے رہے امام زمانہ نے سوار بن منعم ہمدانی شہید پر بھی سلام ارسال کیا ہے سلیمان بن کثیر سلیمان بن مالک سفیان بن مالک کا ذکر بھی زیارت رجبیہ میں ہے زہیرابن قین کے چچا زاد بھائی سلمان بن مضارب نے وفا کرتے ہوئے درجہ رفیعہ پایا لشکر مظلوم کربلا کے سرکردہ افراد میں سعد بن حنظلہ تمیمی کا نام آتا ہے منتہی الامال میں لکھا ہے کہ وہ جوانمردی سے شہید ہوئے زہیربن بشرخثعمی پر زیارت ناحیہ میں ، زہیر بن سلام و زہیر بن سیار پر زیارت رجبیہ میں سلام وارد ہوا ہے ایک اور صحابی رسولۖ زاہر بن عمر واسلمی تھے جنگ حدیبیہ اور خیبر میں حضورۖ کے ہمرکاب تھے یہ مکہ سے امام حسین کے ہمراہ کربلا گئے قبیلہ خزیمہ کے ایک مجاہد نے جام شہادت نوش کیا مگر ان کانام کتب میں درج نہیں ہے یہ دھوکہ سے فوج یزید میں شامل ہوئے تھے اور زہیر بن قیس کی دعوت پر تائب ہوئے ربیعہ بن خوط صحابی رسولۖ تھے کوفہ میں رہتے تھے۔
انہوں نے بھی یہیں کربلا میں شہادت پائی مسلم بن کثیر کا غلام رافع بن عبداللہ ظہرعاشوراکے بعد شہید ہوئے داؤد بن طرماح خالد بن عمر۔ حیان بن حارث ، حنظلہ بن اسعد شبامی حلاس بن عمرو راسبی کے نام بھی انہیں مقدس شہداء میں درج ہیں مسلم بن عوسجہ کے فرزند میدان جہاد میں نکلنے لگے تو امام حسین نے فرمایا تم سوچ لو بوڑھی بیوہ ماں کا تنہا سہارا ہو ان کے پلٹنے پر بیوہ ماں نے للکار کر کہا تم امام پر فدا ہوجاؤ تو وہ شہید ہونے تک دفاع امام کرتے رہے۔
قارئین شہدائے کربلا میں یہ صرف غیر ہاشمی انصار الحسین کا تذکرہ ہے تاکہ اندازہ ہو سکے کہ امت کے جن افراد نے اہل بیت رسولۖ سے وفا کی ان کے مقدس نام ہی ہماری زبانوں پر جاری ہوجائیں اس لئے یہ نام زبان مقدس امام پر جاری ہوئے اور آج تک ارواح انبیاء وآئمہ ان کا ذکر کررہی ہیں۔ سلام ہو ایسے پاک طینت شہداء پر جنہوں نے اپنے خون کی دھاروں سے شجر اسلام کی آبیاری کی اور رسول کریمۖ کے مشکور قرار پائے۔ امام حسین نے اپنے اصحاب پر فخرکیا تھا امام جعفر صادق نے فرمایا کہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوجائیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here