پاکستان اور پاکستان سے باہر یہ نعرہ عام لگ رہا ہے کہ عمران ہے تو پاکستان ہے یا پھر بعض سوشل میڈیا عمران نہیں تو پاکستان نہیں ہے جس کے مناظر واشنگٹن ڈی سی میں آئی ایم ایف کے سامنے عمران خان کے حامیوں میں پایا گیا کہ جنہوں نے احتجاج کرتے ہوئے آئی ایم ایف سے مطالبہ کیا کہ پاکستان کو قرضے نہ دیئے جائیں۔جو دیئے گئے ہیں وہ واپس لیئے جائیں یا پھر عمران خان کے ساتھ مشر وہی قرضے دیئے جائیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ریاست پاکستان کا وجود عمران خان کے ساتھ منسلک ہے جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ہے کہ کبھی قائداعظم بھٹو، بینظیر بھٹو یا نوازشریف نے کبھی نہیں یہ کہا ہے کہ میں ہوں تو پاکستان ہوگا جو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح، بھٹو شہید، بینظیر بھٹو کے اموات کے باوجود ملک قائم ہے مگر پی ٹی آئی کے کارکنوں اور قیادتوں کا پاکستان مخالف نعروں سے یہ تاثرات پیدا ہوا ہے کہ اگر عمران خان اقتدار میں نہیں آئے تو پاکستان کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ تاہم راقم الحروف کی زندگی کا زیادہ وقت پاکستان کی آمرانہ، جابرانہ حکمرانوں کے خلاف گزرا ہے جس میں تیرہ سال کی عمر میں جنرل ایوب کے خلاف احتجاج میں گرفتاری، جنرل یحیٰی خان کے خلاف بنگال میں فوجی ایکشن کی مخالفت اور قید طلبا یونین کے دو مرتبہ منتخب صدر اور نامزد انٹر کالجیٹ باڈی کے چیئرمین کی حیثیت سے غیر جمہوری اور غیر قانونی محرکین کی مخالفت کی۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کی امریکہ میں کھل کر مخالفت میں آدھی زندگی گزار دی جس میں مجھے آج تک کوئی ایسا عمل نظر نہیں آیا ہے کہ ہمارے جمہوریت پسندوں نے کبھی پاکستان کی مخالفت کی ہو ناہی ماضی میں عوامی لیگ، نیشنل عوامی پارٹی،مسلم لیگ نون یا پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادتوں شیخ مجیب ولی خان، بھٹو بینظیر اور نوازشریف نے کبھی تمام تر ریاستی جبروتشدد کے باوجود ریاست پاکستان کیخلاف زبان کھولی ہو جبکہ جنرلوں نے مجوزہ تمام پارٹیوں کو ملک دشمن اور غدار قرار دیا تھا اگر ایسا ہوتا تو ملک ٹوٹنے پر شیخ مجیب آنسو نہ بہاتا۔ ولی خان ملک ٹوٹنے کے بعد موجودہ بچے کھچے پاکستان کے1973کے آئین پر دستخط نہ کرتے۔ بھٹو غیر ملکی طاقتوں کی مدد طلب کرلیتا۔ بینظیر شہید کی شہادت کے وقت سندھ میں پاکستان نہ کھپے کو تسلیم کیا جاتا۔ نوازشریف کو جیل اور ملک بدری میں ماں باپ کی وفات پر دور رکھا گیا۔ مگر ایسا نہ ہوا جبکہ عمران خان کے پیروکار عمران نہیں تو پاکستان نہیں کا نعرہ بلند کر رہے ہیں جو ریاست پاکستان سے انکاری ہیں بہرکیف عمران خان کے نابلد اور بیوقوف پیروکار عمران خان کو شیخ مجیب سے موازنہ کرتے ہوئے ملک ٹوٹنے کے امکانات بیان کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ شیخ مجیب ایک غریب اور بے کس مخروم قوم بنگالی کا لیڈر تھا جو بنگال کے صوبائی مختیاری اور وسائل میں مساوی استعمال کا مطالبہ کر رہا تھا کہ مغربی پاکستان کے لوگوں کی طرح بنگال کے عوام کو بھی حقوق دیئے جائیں جو نہ دیئے گئے۔ انتخابات جیتنے کے باوجود حکمرانی نہ دی گئی جس کی بنا پر بنگال پاکستان سے الگ ہو گیا تھا مگر عمران خان کا تعلق پاکستان کی اشرافیہ سے ملے جن کے تمام غاصب جنرل حمائتی ہیں۔ پاکستان کی امراء کلاس کا لیڈر ہے جس میں سابقہ جنرل جج بیوکریٹ کا استحصالی طبقہ شامل ہے جس میں جنرل ایوب خان، جنرل عمر، جنرل ضیاء جیسے قاتل جنرلوں کی نسلیں ہیں جنہوں نے بنگالیوں کا قتل عام کیا تھا۔ جن کا حلقہ انتخاب امرڑ کی کالونیاں، سوسائٹیاں، رہائش گاہیں ہیں۔ جن کا غریب عوام سے دور دور کا واسطہ نہیں ہے۔ اس لیے جنرلوں کی پیداوار عمران خان کا غریب بے کس اور مظلوم بنگالی قوم کے ہیرو شیخ مجیب سے موازنہ کرنا نہایت احمقانہ اور بیوقافانہ طریقہ کار ہے بہرحال نظریہ عمران سے پاکستان کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے تقسیم کیا گیا ہے جو کراچی کے بعد پورے ملک میں نظر آرہا ہے کہ آج پاکستانی عوام ایک فرقے کی طرح بٹ چکے ہیں جس میں خاص طور پر پنجابی اور پشتون کی تقسیم قابل ذکر ہے۔ جو دونوں ملک کی فوج اور بیوو کریسی پر قابض ہیں اگر پنجابی اور پشتون تقسیم ہوا تو وہ وقت دور نہیں ہے کہ ڈیورنڈ لائن کی آڑ میں افغانستان کی شمولیت سے پٹھان فوج سابقہ بنگالی فوج کی طرح پختونخواہ کی مکتی باہنی بن جائے تو پاکستان یقیناً چار حصوں میں بٹ جائے گا۔ جس کو آہستہ آہستہ ہندوستان، افغانستان، ایران ہڑپ کر جائے گا جس کے بعد نہ رہے گا بانس نہ بجے کی بانسری۔
٭٭٭٭