قاتل کی یہ دلیل منصف نے مان لی
مقتول خود گرا تھا خنجر کی نوک پر
تنظیم سازی بیسیوں خاندانوں پر قیامت ڈھا گئی،ایک لاکھ گاڑیاں مری میں داخل ہوئیںاورمری انتظامیہ تین دن سوئی رہی،روئے ،چیخے،کانپے ،تڑپے،آہ بھر کے مر گئے۔
کتنے سپنے برف خانے میں ٹھھرٹھٹھرکیمرگئے
دوش دیتے کس کو اپنے قتل کا معصوم لوگ
خودپیاپنی موت کا الزام دھر کے مرگئے۔ اندھے، بہرے،گونگے،جاہل اورسفاک حکمران۔ خوفناک، دردناک،المناک ،غمناک سانخہ ۔ مجرمانہ غفلت، بیحسی اور ڈھٹائی برقرار۔ایک طرف سفاکیت اور درندگی کی انتہا دیکھنے میں آئی جوہوٹل کے کمرے پانچ ہزار میں تھا وہ کمرہ پچاس ہزار میں بھی نہیں مل رہا تھا۔دوسری طرف مری کے مقامی فرشتوں کو سلام۔جن مقامی فرشتوں نے برف میں پھنسے ڈیڑھ سو افراد کو اپنے گھر میں جگہ دی، کئی سو لوگوں تک پانی اور چاول پہنچائے ۔ گزشتہ دنوں مری اور گردونواع میں شدید برفباری سے ہزاروں سیاح پھنس گئے۔کئی ہزار گاڑیاں برف کے طوفان میں پھنس گئیں ۔جنہیں پاک آرمی کے جوانوں کی امدادی کارروائیوں سے باہر نکالا گیا۔اگر سارے کام فوج نے ہی کرنے ہیں تو حکمراں کیا کر رہے ہیں۔ نااہل ،ناتجربہ کار ،بیحس اور بے عقل حکمرانوں نے ملک کا حشر اورستیاناس کردیا ہے۔ ریاست مدینہ کے ذمہ داران ۔ملک میں ٹورازم کو ڈویلپ کرنے کا راگ آلاپ رہے ھیں،لیکن کسی سہولت اور گائیڈ لائن کو وضع نہیں کیا گیا۔اور نہ لوڈ مینجمنٹ کا کوئی میکنیزم ہے۔ روزانہ سیاحت کو فروغ کی باتیں بیکار ہیں۔ مقامی بزنس مین ،ہوٹلز،موٹلز لوٹ مار میں لگے ہیں۔ سسکتی انسانیت مری میں لاوارث ۔ ایمرجنسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کسی متبادل ریلیف کا کوئی انتظام نہیں۔نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ۔پنجاب ہائی وے۔ لوکل اتھارٹیز اور ٹورازم کا محکمہ کہاں تھا؟جب بیس میل کے ایریا میں لوگ بے یارومددگار چیخ چیخ کر مدد کے لئے پکار رہے تھے۔؟چندمیل کے پکنک پوائنٹ پر برفباری میں پھنسے افراد کو ریسکیو نہیں کیا گیا۔ہیوی مشنریز،اور برف صاف کرنے والی گاڑیوں کو بروقت ڈویلپڈ کیوں نہیں کیا گیا؟ایک لاکھ افراد کے مری پہنچے پر بغلیں بجا سکتے ہیں لیکن سہولیات فراہم نہیں کرسکتے۔قارئین! چلیں مان لیں کہ شہریوں اور سیاحوں سے غفلت ہوگئی۔کیا سیاح غفلت کریں تو آپ انہیں مرنے کے لئے چھوڑ دینگے؟۔ یہی ہمارا المیہ ہے کہ غلامی کے دور میں جی رہے ہیں،ٹول پلازہ پر ہم ٹیکس دیتے ہیں۔ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پر ٹیکس،ہوٹل پر کھانا کھانے کا ٹیکس،بجلی،گیس کے بل اور پٹرول پر ٹیکس،موبائل فون اور فون کارڈ پر ٹیکس، پراپرٹی پر ٹیکس، رجسٹری پر ٹیکس ،کیبل پر ٹیکس،دوائی اور اشیا خوردونوش پر ٹیکس،ہاسپیٹل کے بل پر ٹیکس،بچوں کی پیدائش پرچی پرٹیکس، شادی کے نکاح کی رجسٹریشن پر ٹیکس،سکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹی کی فیسوں پر ٹیکس،ڈرائیونگ لائسنس،ہر قسم کے لائسنس،انٹرنیٹ کے کنکشن پر ٹیکس،بجلی اور گیس کے کنکشن پر ٹیکس، کسانوں کی کھاد ، دوائیوں اور بیج پر ٹیکس،منڈیوں تک اناج پہنچانے پر ٹیکس،گھروں کے پانی کے بل پر ٹیکس ،پینے والی پانی کی بوتل پر ٹیکس، گارمنٹس،فوڈ، بیورویج پر ٹیکس،گھر کا نقشہ بنانے اور بلڈنگ کا نقشہ پاس کرانے پر ٹیکس،حکمران کہتے ہیں عوام ٹیکس نہیں دیتے۔غریب عوام تو ٹیکس دیتے ہیں،سیاستدان لینڈ مافیا،بزنس مافیا ٹیکس نہیں دیتے۔ عوام تو اپنے ہر قدم اٹھانے پر ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ مگر کسی بھی سہولت سے محروم ہیں۔ اب تو صرف نماز پڑھنے ،سانس لینے اور سورج کی روشنی پر ھی ٹیکس رہ گیا ہے۔ آپ اگر حکومت کی کارکردگی پر سوال کریں تو آپ کو پٹواری اور جیالا بولاجاتا ھے۔ خالانکہ یوتھیوں کی اکثریت مشرف کی باقیات۔ نواز لیگ چوروں، پی پی کے لٹیروں،گجرات کے ڈاکوں اور ایم کیوایم کے فاشسٹ دہشت گردوں پرمشتمل ہے۔ یہ میرا نہیں ریاست مدینہ کے شغل اعظم کاکہناہے۔ سوشل میڈیا،واٹس اپ،یو ٹیوب،اور ٹوئٹر پر پورا ملک چل رہا ہے۔ وزیراعظم، وزیراعلی اور وزرا کے ٹوئٹر پر ملک چلایا جارہا ھے۔یوتھیے تنقید کرنے پر گالیاں بک رہے ہیں۔ یوتھیے کے علاوہ سب کو پٹواری اور منافق قرار دیکر اپنے آپ کومحب وطن اور اعلیٰ درجے کا مسلمان سمجھا جارہا ہے۔ ہماری ایمانی اور اخلاقی ہستی کا یہ عالم ہے کہ (معاذاللہ)ہم مسلکی طور پر شیخ عبدالقادر جیلانی کو رسول اللہ سے معزز و معتبر مانتے ہیں اور سیاسی طور پر یوتھیے عمران خان کو،جیالے زرداری کواور لیگیئے نواز شریف کو اپنے ابا جان سے زیادہ محترم و مکرم مانتے ہیں؟آخر میں صرف یہ کہوں گا کہ ایک لمحہ آنکھیں بند کر کے زراسوچیئے ! کہ اگر خدانخواستہ ان آفت زدہ میں آپ کے خاندان کے افراد ہوتے تو کیا آپکا رویہ یہی ہوتا۔؟
٭٭٭