فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ
محترم قارئین! ہجرت تو بہت سے صحابہ کرام علیھم الرّضوان نے کی مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ہجرت کے بارے میں حضرت علی المرضی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ سوائے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہم ایک شخص کو بھی نہیں بتا سکتے کہ اس نے علی الاعلان ہجرت کی ہو۔ آپ نے اس شان سے ہجرت کی کہ ہتھیار پہن کر کندھے پر کمان لٹکائے اور ہاتھ میں چند تیر لئے کعبہ میں داخل ہوئے طواف کیا پھر ”مقام ابراہیم” پر دو رکعت نماز ادا کی۔ اس کے بعد اشراف قریش کو مخاطب کرکے فرمایا کہ میں ہجرت کرکے مدینہ جارہا ہوں۔ جو شخص اپنے بچوں کو یتیم اور بیوی کو بیوہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہو وہ میرا راستہ روک کرمقابلہ کے لئے تیار ہوجائے۔ مگر کسی کافر کی تاب وطاقت نہیں ہوئی کہ آپ کا راستہ روکتا یا آپ کا مقابلہ کرتا اور آپ اعلانیہ بیس آدمیوں کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر مہاجرین اوّلین میں شامل ہوگئے۔ مدینہ منورہ پہنچ کر نصرت وحمایت اسلام کا ایسا شاندار ریکارڈ قائم کردیا جو تاریخ اسلام میں یقیناً ایک بہت ممتان شاہکار ہے تمام مئورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یکم ہجری سے حضور علیہ السّلام کے وصال باکمال تک جتنی لڑایاں پیش آئیں، غیر مسلموں سے جو جو معاہدات ہوئے اور اشاعت اسلام کے لئے وقتاً فوقتاً جتنی تدبیریں اور انتظامات کئے گئے ان میں سے ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ہے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شرکت کے بغیر انجام پایا ہو۔ سفر وحضر صلح وجنگ ہر جگہ اور ہر حال میں بارگاہ نبوت کے خاص الخاص رفیق ومعین رہے اور تن، من، دھن کے ساتھ خدمت دین ونصرت اسلام کے لئے کمربستہ رہے۔٢ سن جنگ بدر میں آپ ایسی خصوصیات کے ساتھ مخصوص و ممتاز ہیں جو دوسروں کو حاصل نہیں جنگ بدر میں کفار قریش کے تمام قبائل لڑائی کے لئے آئے مگر حضرت عمر کے قبیلہ ”بنوعدی” کا ایک آدمی بھی اس جنگ میں شریک نہیں ہوا۔ یہ صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے رعب وداب کا اثر تھا کہ سب سے پہلے جنگ بدر میں جو صحابی شرف شہادت سے سرفراز ہوئے وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے غلام مہجع تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ جو قریش کا معزز سردار تھا جب یہ جنگ کے لئے میدان میں نکلا تو حضرت عمر نے آگے بڑھ کر اپنی تلوار سے اس کا سر اڑا دیا۔ آپ کی خصوصیات میں سے ایک بہت ہی بڑی اور خاص خصوصیت یہ ہے کہ اسلام کے معاملہ میں رشتہ داری اور دنیاوی محبت کا اثران کے دل پر کبھی غالب نہیں ہے۔ چنانچہ یہ واقعہ جنگ بدر میں آپ نے اپنے ماموں کو اپنی تلوار سے قتل کردیا چونکہ وہ خدا ورسول کا دشمن تھا۔٣سن غزوہ احد میں ایک ایسا بھی وقت آیا کہ اچانک کفار نے مسلمانوں کے پیچھے سے اتنے زور وشور کا حملہ کردیا کہ مسلمان اس ناگہانی زدوکوب کو نہ روک سکے اور کافروں نے پتھروں اور تیری کی ایسی بوچھاڑ کر دی کہ رحمت عالم ۖ کے دندان مبارک شہید ہوگئے۔ پیشانی اقدس پر ز خم آئے۔ اس برہمی اور ناگہانی میں یہ غُل پڑ گیا کہ ”رسول اللہ ۖ شہید ہوگئے ہیں۔ جنگ احد میں یہ وہ نازک وقت تھا کہ مسلمانوں کا استقلال متزلزل ہوگیا۔ اس ہوش رُبا عالم میں بھی حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ میدان جنگ سے نہیں ہٹے اور پورے عزم واستقلال کے ساتھ کفار کے مقابلہ میں ڈٹے رہے۔ یہاں تک کہ کافروں کو بھگا دیا جب آپ کو معلوم ہوا کہ رسول اللہۖ فلاں گڑھے میں ظاہری زندگی مبارکہ کے ساتھ زخمی ہیں تو فوراً خدمت اقدس میں شامل ہوگئے۔ ٥سن میں جنگ خندق کا معرکہ پیش آیا تو خندق کے ایک حصہ کی حفاظت کے لئے رحمت عالمۖ نے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو معین فرمایا۔ ایک دن کافروں نے اس جگہ سے خندق پار کرکے حملہ کا ارادہ کیا تو آپ نے آگے بڑھ کر حملہ روکا اور کفار کے لشکر کو درھم برہم کردیا۔ چنانچہ آج بھی وہاں آپ کے نام کی مسجد موجود ہے بہرحال ہر موقع پر اسلام کی خدمت کیلئے اپنے آپ کو ہر لحاظ سے پیش پیش رکھا۔ حضرت امیر المئومنین ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی ظاہری حیات طیبہ میں ہی اپنا ولی عہد اور جانشین آپ کو مقرر فرما دیا تھا چنانچہ آپ نے٢٢جمادی الثانی١٣ سن میں مسند خلافت کو سرفراز فرمایا آپ کے دور خلافت میں بڑی بڑی اسلامی فتوحال حاصل ہوئیں۔ دمشق، حمص، بعلبک، بصرہ اور ایلہ فتح ہوئے۔ اہواز، مدائن، قنسرین، حلب، تکریت، جند، نیشاپور، حلوان، حران، قیسادیہ، مصر، نہاوند، آذربائیجان، دینور، ہمدان، طرابلس،(ے)، کرمان سجستان، مکران، اصفہان اور اسکندریہ وغیرہ فتح ہوئے۔٢٣سن میں آپ نے حج فرمایا واپسی کے بعد آپ پر حملہ کیا گیا۔ انہیں زخموں کی وجہ سے آپ کی شہادت ہوگئی۔ نبیۖ پاکۖ کے روضہ انور کے احاطہ میں ہی مدفن پایا۔ آپ نے فضائل مناقب کو جس قدر بھی بیان کیا جائے بہت کم ہے کیونکہ آپ کے فضائل مناقب بہت زیادہ ہیں۔ حضور محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ کے داماد وشاگرد وخلیفہ، علامہ زمان، فقہہ عصر، شیخ الحدیث والتفسیر، الحافظ، الحکیم مفتی محمد نواب الدین علیہ الّرحمتہ کا وصال باکمال اسی ماہ ذوالحجہ کی٢٧تاریخ کو ہوا۔ آپ کے بڑے بیٹے صاحبزادہ محمد معین الدین رضوی زیدہ شرفہ دین متین کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔ آپ علیہ الّرحمہ ساری زندگی درس نظامی کی درس وتدریس میں لگے رہے۔ آپ کے شاگردوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو پوری دنیا میں دین متین کی خدمت میں مصروف ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیوض وبرکات سے ہمیں وافر حصہ عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭













