فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
281

فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

محترم قارئین! اللہ تعالیٰ کا فرمان عالی شان ہے کہ ”ہر وہ جو زمین پر رہتا ہے، فانی ہے۔ ہر شے ہلاک ہونے والی ہے۔ ہر ذی روح چیز موت کو چکھنے والی ہے۔ اس دار فانی میں جو بھی آیا ہے اس نے ایک دن جانا ہی جانا ہے مگر وہ مالک الملک جب کسی کو یہاں بھیجتا ہے تو پوچھتا نہیں ہے کہ جائو گے یا نہیں؟ اور جب بلاتا ہے تو بھی نہیں پوچھتا کہ آئو گے یا نہیں؟ بلکہ جہاں چاہے جب چاہے بلا لیتا ہے، جب بھیجتا ہے تو وہ بے شک روتا رہے” بھیج دیتا ہے کیونکہ رونا خوشی کی دلیل نہیں ہے بلکہ وہ اس لئے روتا ہے کہ ایک پاک جہان سے جہاں گناہ کا تصور تک نہ تھا بلکہ پاک روحیں تھیں اور اب اس جہان میں آگیاہوں جو سراسر گناہوں کا مرکز ہے۔ میرا کیا بنے گا؟ مگر اللہ تعالیٰ کے رونے کو نہیں دیکھتا بلکہ اپنی حکمت کو دیکھتا ہے۔ اسی طرح جب بلاتا ہے تو پھر بھی نہیں پوچھتا کہ آئو گے یا نہیں؟ بلکہ وہ بلا پوچھے بلا لیتا ہے۔ اگر وہ بندوں سے پوچھ لے تو کوئی شخص بھی مرنے کو تیار نہ ہوگا ہاں صرف انبیاء علیھم الصّلٰوة و السّلام اور اولیاء علیھم الرّضوان وہ نفوس قدسیہ ہیں جب اس کا پیغام ملے تو تیار ہوتے ہیں اور ذرا بھر لیت ولعل نہیں کرتے۔ جیسے کہ ایک مرتبہ حضرت ملک الموت یعنی عزرائیل علیہ السّلام حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ سلام عرض کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے ملک الموت علیہ السّلام سے فرمایا کیسے آئے ہو؟ عرض کی آپ کی جان قبض کرنے کے لئے فرمایا: مجھے جانتے ہو میں کون ہوں؟ عرض کی خلیل اللہ، فرمایا: خلیل کا معنیٰ جانتے ہو؟ عرض کی جانتا ہوں، فرمایا: پھر کوئی دوست بھی دوست کو مارتا ہے؟ جائو رب سے پوچھ کے آئو۔ چنانچہ خداوند قدوس کے دربار میں حاضر ہوکر عرض کیا:یااللہ! تیرا خلیل کہتا ہے کہ میں خلیل خدا ہوں، کوئی یار بھی یار کو مارتا ہے؟ فرمایا: وہ ٹھیک کہتے ہیں، ان سے کہو کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کوئی دوست بلائے تو کوئی دوست انکار بھی کرتا ہے؟ بس سنتے ہی فرمایا: لیں ابھی تیار ہوں۔ اسی طرح حضرت آقائے دو عالمۖ نے ایک دفعہ مجمع، صحابہ علیھم الرّضوان میں فرمایا: اللہ نے بندے کو اختیار دیا ہے کہ وہ زمین پر رہے یااللہ کے پاس چلا آئے تو اس بندے نے خدا کے پاس جانے کو قبول کرلیا ہے، یہ سنتے ہی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ رو پڑے۔ صحابہ علیھم الرّضوان نے پوچھا صدیق! اس میں رونے کی کیا بات ہے؟ تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم جانتے ہو وہ بندہ کون ہے؟ عرض کیا نہیں! فرمایا وہ بندہ جس کو جانے نہ جانے کا اختیار ملا ہے۔ وہ حضورۖ ہیں اب بہت جلدی حضورۖ ہمیں داغ دفارقت دیں گے۔ چنانچہ اس کے بعد آپۖ کا جلد ہی انتقال ہوگیا۔ اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بات پوری ہوگئی۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ انبیاء علیھم الصّلواة والسّلام کو اختیار عنایت فرماتا ہے لیکن وہ پھر بھی وصال کو ہی ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہ دنیا وآخرت کی حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ آخرت ہی بہتر اور باقی ہے لیکن عام لوگ دنیا کی زیب وزینت سے دھوکہ کھا کر ایسی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ خصوصاً کافر اور منافق لوگ، باقی ایمان والے تو ہمیشہ شہادت کی موت طلب کرتے ہیں اور اسے بہت بڑی سعادت سمجھتے ہیں۔
باقی یہ بات تو مبنی پر حقیقت ہے ایک مرتبہ تو ہر چیز کو فنا ہے اور ہر ذی روح جہیز نے موت کو چکھنا ہی ہے۔ حضور اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ:انبیاء کو موت آنی ہے فقط آنی ہے پھر ان کی حیات جادوانی ہے مگر ایمان والوں اور کافروں کی موت میں فرق ہے۔ تو انبیاء علیھم الصّلواة والسّلام کی عظمتوں کا کیا کہنا؟ فرق یہ ہے کہ مئومن کی روح کو اچھی جگہ بھیجنا ہوتا ہے تو اعلیٰ علیّین بہت اعلیٰ جگہ ہے جب فرشتے مئومن کی روح اللہ تعالیٰ کے دربار میں پیش کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فرشو! اس موئمن کی روح کو اعلیٰ علیّین میں بھیج دو۔ تو جب فرشتے کافر کی روح کو پیش کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فرشتو! اس کو سجّین میں بھیج دو۔ اور جب فرشتوں نے روح انورۖ کی روح پاک کو حاضر کیا تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جسم مصطفیٰۖ میں ہی رکھ دیا جائے۔ چنانچہ فرشوں نے ایسے ہی کیا اسی لئے علمائے نے فرمایا: ”حیّ سمیع فی قبرہ” یعنی حضور پاکۖ اپنی قبر انور میں زندہ بھی ہیں اور سنتے بھی ہیں۔ اسی لئے حضور پاکۖ نے فرمایا: میرے مزار پر ایک فرشتہ مقرر ہے جو مخلوق کی آوازیں سنتا ہے اور مجھے کہتا ہے کہ حضور آپ کو فلاں بن فلاں سلام کہتا ہے اور باقی یہ بھی فرمان عالیشان ہے: انّی اسمع مالا تسمعون وانی اری مالاترون، یعنی میں وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سن سکتے اور میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے۔ حضور پاکۖ اپنے تمام امتیوں پکارنے والوں کی پکار سنتے اور جواب دیتے ہیں پکارنے والا کسی بولی میں پکارے آپ کو کسی بولی اور لب ولجہ کی کوئی احتیاجی نہیں جہاں جانا چاہیں تشریف لے جاتے ہیں۔ یہ سب اختیارات اور شانیں اللہ پاک نے آپ کو عطا فرمائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حقائق کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here