فتح حق کی ہوگی!!!

0
3
جاوید رانا

ہمارے گزشتہ کالم بچہ جمہورا نہیں جمہوریت چاہیے میں ہمارا استدلال اور بنیادی نکتہ یہی تھا کہ ملک اور عوام کی خوشحالی، انسانی حقوق و انصاف کی عملداری کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنے رویوں اور عمل پر نظر ثانی اور اعتدال کا راستہ اپنانے کو اول ترجیح بنانا ہوگی۔ ہمارا یہ مشورہ ان قوتوں کیلئے تھا جو اس وقت اقتدار و اختیار کا منبع ہیں، ساتھ ہی ان کیلئے بھی جو اپنے حقوق اور عوام کے حق و مینڈیٹ کی جدوجہد میں معتوب و مقہور ہیں۔ افسوس کہ ہمارا سیاسی ماحول و معاشرہ تخلیق پاکستان سے آج تک سلطنت برطانیہ کے متروک قول ڈیوائیڈ اینڈ رول پر ہی عمل پیرا ہے، سلطنت برطانیہ کا کردار ان کے پاس ہے جنہیں ہم مقتدرہ یا اسٹیبلشمنٹ قرار دیتے ہیں اور جن کی مرضی و پسند کے مطابق سلطنت و ریاست کے امور و فیصلے بچہ جمہوروں کے ذریعے کرائے جاتے ہیں، جمہور کی خواہشات و مینڈیٹ کے مطابق نہیں ہوتے۔ اس مقصد کی تکمیل کیلئے ڈیوائیڈ اینڈ رول یعنی تقسیم اور حکمرانی کا یہ فارمولا ہر دور میں ہی اپنایا جاتا رہا ہے لیکن حالیہ دور میں یہ عمل سیاسی تقسیم ہی نہیں اداراتی تقسیم تک وسیع ہو چکا ہے۔ مقتدرہ، عدلیہ، مقننہ اور آئینی و انتظامی اداروں کے مابین ہی نہیں خود آپس میں بھی تقسیم کا سلسلہ ہم مسلسل اپنے کالموں میں بیان کرتے رہے ہیں اور ہر پاکستانی بھی اس سے باخبر اور متاثر ہے۔
موجودہ طاقتوروں کے جبر و استبداد سے بری طرح متاثرہ عوامی مینڈیٹ و مقبولیت کی سب سے بڑی جماعت کے قائد عمران خان اور اس کے قائدین، وفاداروں، عزیز و اقارب حتیٰ کہ عوام کیساتھ جو ظالمانہ روئیے روا رکھے جا رہے ہیں ان کی کوئی حد ہی نہیں ہے۔ آپ کے علم میں یقیناً سارے معاملات ہیں لہٰذا انہیں دہرانے کے برعکس یہ عرض کر سکتے ہیں کہ ظالموں کیخلاف آہ کرنا بھی جرم قرار پایا ہے۔ بات یہاں تک ہی محدود نہیں، اب پی ٹی آئی کی صفوں میں بھی دراڑیں ڈالنے کی غرض سے ڈیوائیڈ اینڈ رول کا فارمولا آزمایا جا رہا ہے۔ گزشتہ ڈی چوک کے احتجاجی مظاہرے کے حوالے سے جو حقائق اور واقعات ظہور پذیر ہوئے خصوصاً وزیر اعلیٰ پختونخواہ کے حوالے سے جو مخمصہ سامنے آیا اور جس کی گتھیاں رفتہ رفتہ سُلجھ رہی ہیں اس حقیقت کی غماز ہیں کہ پی ٹی آئی کی صفوں میں بھی دراڑیں ڈالنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ 15 اکتوبر کو ڈی چوک میں احتجاج کیلئے ہونے والے سیاسی کمیٹی کے اجلاس میں علی امین گنڈا پور، بیرسٹر گوہر، بیرسٹر سیف و شیخ وقاص اکرم نے احتجاج سے گریز کرتے ہوئے شنگھائی کانفرنس کے انعقاد کو سبب بنایا جبکہ حماد اظہر، سلمان اکرم اور راجہ وغیرہ نے کپتان کی جیل میں حالت زار اور ملاقاتوں پر پابندی کو وجہ بناتے ہوئے احتجاج پر زور دیا۔ علی امین نے کپتان سے اپنے رابطہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کپتان کی کیفیت و حالت ٹھیک ہے۔ تلخی کی صورتحال گنڈا پور اور سلمان راجہ کے درمیان تلخ کلامی تک پہنچی۔ بات پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت تک ہی نہیں بعض دیگر رہنمائوں اور منتخب نمائندوں کے مؤقف بھی اس حقیقت کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ کہیں نہ کہیں لڑائو اور حکومت کا فلسفہ عمل پذیر ہے۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان، پی ٹی آئی کے وفاداروں، عمران کی بہنوں کیساتھ ریاست کے مظالم، قانونی، عدالتی و غیر انسانی سلوک کے باوجود تنظیم میں اتحاد کا فقدان محض تقسیم کے ایجنڈے تک ہی محدود ہے، یا ان کے بعض اقدامات و فیصلے وقت اور حالات کے تناظر میں نہیں ہوتے، قیادت میں موجود بعض رہنمائوں کے مؤقف میں ایک دوسرے سے تضاد، عمران کی محبت اور عوامی مقبولیت سے فائدہ اٹھانے والے خصوصاً ملک سے باہر بیٹھے شہباز گِل جیسے سوشل میڈیا کے اپنے مالی فائدوں و مقبولیت بڑھانے اور بے سروپا خوشیاں بلکہ افواہیں، پھیلانے کو بھی حالات کی مزید خرابی اور عمران کیلئے مشکل میں اضافے کا سبب کہا جا سکتا ہے۔ ہمارا تجزیہ ہے کہ موجودہ مقتدرین کے عمران خان کو منظر نامے سے بے دخل کرنے کے ایجنڈے کی تکمیل میں متذکرہ بالا محرکات کہیں نہ کہیں عمران اور پی ٹی آئی کی جدوجہد میں نادان دوست کا کردار پیش کر رہے ہیں۔
کڑی آزمائش کے اس وقت جب ریاست اور اس کے آلۂ کار آرٹیکل 26 کی منظوری کیلئے تحریک کے منتخب ارکان کی منڈی لگانے اور انکار کی صورت میں انہیں یا ان کے پیاروں کے اغواء اور ڈنڈے سوٹے پر تُلے ہوئے ہیں، عمران اور اس کے خاندان و وفاداروں کو کڑی سے کڑی سختیوں، آزمائشوں سے دوچار کر رہے ہیں، دانش کا تقاضہ ہے کہ تحریک کے قائدین، ساتھی، وفادار، قائد کے منشور و ایجنڈے کے مطابق چلیں، اور مزید نزاعتی وجوہات کا سبب نہ بنیں اور نہ ہی زور داروں اور آلۂ کاروں کے مفاد میں ہوں۔ ہر وہ اقدام جو یکجہتی، اتحاد اور اتفاق کے تناظر میں باہمی مفاہمت سے ہو، مقابل کے ڈیوائڈ اینڈ رول فارمولے کی ناکامی کی طرف ہی جائیگا۔ یاد رہے کہ فتح حق کی ہوتی ہے، ظلم مٹنے کیلئے آیا ہے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here